امریکا کے اعلیٰ فوجی جنرل کا ترکیہ کو شام میں دراندازی کے خلاف انتباہ
واشنگٹن،دسمبر ۔ مشرقِ اوسط کے لیے امریکاکے اعلیٰ فوجی جنرل نے خبردارکیاہے کہ شام میں ترکیہ کی ممکنہ زمینی فوجی کارروائی پورے خطے کومزیدعدم استحکام سے دوچارکرسکتی ہے۔سینٹ کام کے سربراہ جنرل ایرک کوریلا نے جمعرات کو ایک بیان میں کہاکہ’’میں اس کے بارے میں بہت فکرمند ہوں کیونکہ یہ کارروائی خطے کوغیرمستحکم کرسکتی ہے اورہمارے ایس ڈی ایف (شامی جمہوری فورسز)کے شراکت داروں کو (داعش کی حراستی) جیلوں سے دورکرسکتی ہے۔شمالی شام میں ان کی قریباً 28 جیلیں ہیں‘‘۔ترکیہ حالیہ برسوں میں واشنگٹن سے ناراض رہا ہے کیونکہ امریکاشام اورعراق میں داعش کے خلاف لڑائی میں شامی ڈیموکریٹک فورسز کاشراکت دار ہے۔ترک افواج نے حال ہی میں شام اورعراق میں کردوں کے ٹھکانوں پربھی بمباری کی ہے اور ان حملوں کو استنبول میں نومبرمیں ہونے والے بم حملے کے ناگزیرردعمل سے منسوب کیا ہے۔ ترکیہ نے اس حملے کا الزام کرد ملیشیا پرعائد کیا تھاجبکہ کردوں نے اس کی سختی سے تردید کی تھی۔لیکن امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان نے کہا ہے کہ غیر مربوط فوجی کارروائیوں سے عراق کی خودمختاری کو خطرہ لاحق ہے اور اس نے انقرہ کو باربار متنبہ کیا ہے کہ وہ شام میں کردوں کے خلاف زمینی کارروائی نہ کرے۔جنرل کوریلا نے جمعرات کو ٹیلی فون پر ایک بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا:’’اس کی وجہ سے وہ ان [جیلوں] سے نکل سکتے ہیں اورانھیں خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔انھوں نے جنوری میں داعش کے قریباً چارہزارقیدیوں کے جیلیں توڑکرفرارکی طرف اشارہ کیا۔کوریلا نے کہا کہ ترکیہ کے حملے سے الہول کیمپ کی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔یہ کیمپ داعش کے ہمدردوں اورخاندانوں سے بھرا ہوا ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس کیمپ میں رہنے والوں کی تعداد 55,000 کے لگ بھگ ہے۔ان میں قریباً 90 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔کوریلا نے کہا:’’ہم کشیدہ صورت حال کو کم کرنے اورترکوں کے ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے جو کچھ بھی کرسکتے ہیں،وہ اہم ہوگا‘‘۔