اسقاط حمل کی گولیاں کھانے سے یہ تبدیلیاں آتی ہیں

برلن،دسمبر۔خواتین میں گولیاں کھا کر حمل گرانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ یہ گولیاں کب تک کھائی جا سکتی ہیں، کیسے کام کرتی ہیں اور ایک خاتون کے جسم پر ان کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ تفصیلات اس رپورٹ میں!کچھ خواتین اسقاط حمل کے آپریشن سے بہت ڈرتی ہیں۔ ایسی خواتین کے لیے اسقاط حمل کی گولیوں کا استعمال ایک متبادل ہے۔ اسقاط حمل کی گولیاں کھانے سے پہلے کسی ڈاکٹر سے ایسے ہی مشاورت ضروری ہے، جیسے کہ حمل گرانے کے آپریشن سے قبل کسی ڈاکٹر سے کی جاتی ہے۔ڈاکٹر سب سے پہلے الٹراساؤنڈ کرتے ہیں تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ حمل کس مرحلے میں ہے اور آیا اس طریقہ کار پر کوئی طبی اعتراضات تو نہیں ہیں۔ اس کے بعد حاملہ خاتون کو ممکنہ ضمنی اثرات کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کہیں حمل بچہ دانی کے باہر تو نہیں ہے؟ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کہیں بچہ دانی کے قریب خون تو نہیں جم رہا؟ یہاں تک کہ جن لوگوں کو دمہ ہے، ان کے لیے بھی اسقاط حمل کی دوائی لینے سے پہلے اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ گولیاں بغیر کسی خطرے کے دی جا سکتی ہیں۔
اسقاط حمل کا سلسلہ کیسے شروع ہوتا ہے؟اگر سب کچھ ٹھیک ہے اور تشویش کی کوئی بات نہیں تو سب سے پہلے حاملہ عورت کو مائف گائن‘ نامی دوائی دی جاتی ہے۔ اس گولی میں سب سے فعال جزو مائف پرسٹن‘ ہوتا ہے۔ یہ ایک مصنوعی ہارمون ہے، جو پروجیسٹرون کے اثرات کو روکتا ہے۔ پروجیسٹرون جسم کو حمل برقرار رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
مائف گائن دوائی کھانے کے بعد بچہ دانی نرم ہو جاتی ہے اور کْھلنا شروع کر دیتی ہے۔ بچہ دانی کی پرت ڈھیلی پڑنے کے ساتھ ہی جنین مرنا شروع کر دیتا ہے۔ایسی کوئی بھی دوائی ہمیشہ ڈاکٹر کے مشورے سے لینی چاہیے۔ کئی ایسے ممالک ہیں، جہاں حمل گرانا جرم ہے تو ایسے ممالک میں حاملہ خواتین خفیہ طور پر خود ہی ایسی گولیاں کھا لیتی ہیں، جس کے شدید طبی نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
یہ گولیاں کب تک کھائی جا سکتی ہیں؟اگر خاتون کو ماہواری آنا بند ہو جائے تو یہ ایک واضح نشانی ہوتی ہے کہ خاتون حاملہ ہو چکی ہے۔ مائف گائن دوائی آخری ماہواری کے 63 دن بعد تک کھائی جا سکتی ہے۔ اگر حاملہ عورت اسے لینے کے 30 منٹ کے اندر اندر قے کر دیتی ہے تو اسے دوسری گولی لینی چاہیے کیونکہ اس صورت میں دوائی جسم میں نہیں رہ سکی۔اگر اس دوائی کے غیر متوقع ضمنی اثرات سامنے آئیں تو فوری طور پر ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ حاملہ خواتین کو ہدایت دی جاتی ہے کہ یہ دوائی کھانے کے بعد وہ کسی قابل بھروسہ شخص کو اپنے قریب رکھے تاکہ ہنگامی صورت حال میں اس کی مدد حاصل کی جا سکے۔ لیکن صورتحال پیچیدہ ہونے کے امکانات انتہائی کم ہی ہوتے ہیں۔اسقاط حمل کی گولی لینے کے تقریباً 24 گھنٹے بعد حاملہ خاتون کو ماہواری کی طرح خون بہنے اور درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ گولی کھانے والی ہر چوتھی خاتون کو 24 گھنٹے سے کچھ زیادہ وقت لگتا ہے۔اس دوران اگر آپ کو زیادہ درد ہو تو گائناکالوجسٹ پین کلرز لینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ مائف گائن لینے کے 36 سے 48 گھنٹے بعد حاملہ خاتون کو پروسٹگینڈن سپلیمنٹ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد جنین خون کے ساتھ بہہ کر باہر نکل آتا ہے۔اگر حمل سات ہفتوں تک کا ہے تو حاملہ خاتون کو نگلنے والی گولیوں کی شکل میں دوا دی جاتی ہے اور اگر حمل زیادہ عرصے کا ہے تو گولیاں حاملہ خاتون کی اندام نہانی میں ڈالی جاتی ہیں۔طبی اسقاط حمل کے تقریباً ایک ماہ بعد حمل کا ٹیسٹ کرانا ضروری ہے تاکہ پتا چل سکے کی حمل اب جاری نہیں ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ گولیاں صحیح طریقے سے لینے کے باوجود بچہ دانی میں کچھ ٹیشوز باقی رہ جاتے ہیں، جنہیں پھر ایک چھوٹے سے آپریشن کے ذریعے نکالا جاتا ہے۔
مزید مضر اثرات کیا ہیں؟متلی، قے اور اسہال طبی اسقاط حمل سے وابستہ عام ضمنی اثرات ہیں۔ اگر یہ دوائی کھانے کے ایک ہفتہ بعد تک بھی یہ ضمنی اثرات غائب نہ ہوں تو پھر طبی ماہرین سے رابطہ کرنا چاہیے۔ تاہم خون کا بہنا کئی ہفتوں تک جاری رہ سکتا ہے۔ اسی طرح خون کو روکنے کے لیے جب ٹیمپون کا استعمال کیا جاتا ہے تو انفیکشن ہونے کا بھی خطرہ رہتا ہے۔طبی اسقاط حمل کے بعد سنگین پیچیدگیاں نا ہونے کی برابر ہوتی ہیں۔ عام طور پر دوائی لینے کے چار سے چھ ہفتوں کے بعد ماہواری کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔اسقاط حمل کے صرف دس دن بعد بیضہ بن سکتا ہے اور عورت دوبارہ حاملہ ہو سکتی ہے۔ اس لیے احتیاطی تدابیر بہتر ہیں۔

Related Articles