افغانستان: خواتین کے تفریحی پارکوں میں بھی جانے پر پابندی

کابل،نومبر۔افغانستان میں طالبان حکام نے فیصلہ کیا ہے کہ اب خواتین کو تفریحی پارکوں میں بھی جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ عوامی مقامات تک رسائی کو محدود کرنے کے اعلان کے بعد خواتین کے لیے یہ نیا حکم سامنے آیا ہے۔افغانستان میں اخلاقیات سے متعلق پولیس نے نو نومبر بدھ کے روز حکم دیا کہ ملک کے تمام تفریحی پارکوں میں اب خواتین کے داخلے پر پابندی عائد کر دی جائے۔ طالبان نے افغان خواتین پر پہلے سے ہی بہت سی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور اس نئے حکم سے خواتین کی آزادی مزید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔گزشتہ برس اگست میں اقتدار میں واپسی کے بعد سے ہی طالبان خواتین کی عوامی سرگرمیوں پر پابندیاں لگاتے رہے ہیں، جس کی وجہ سے روزگار اور تعلیم جیسے ان کے بنیادی حقوق بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
نئے حکم کے بارے ہمیں کیا معلوم ہے؟افغانستان کی وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر (ایم پی وی پی وی) کے ایک ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اب خواتین کو تفریحی پارکوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔خبروں کے مطابق اس طرح کے دو پارک کے منتظمین نے اپنی شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ طالبان نے ان سے کہا ہے کہ وہ اپنے پارکوں میں خواتین کو داخل ہونے کی اجازت نہ دیں۔لیکن ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ان نئی پابندیوں پر عمل کیسے کیا جائے گا کیونکہ کچھ دن پہلے ہی وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر نے اس حوالے سے ایک نئے اصول کا اعلان کیا تھا، جس میں تفریحی پارکوں کو خواتین اور مردوں کے لیے تقسیم کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ اس کے مطابق پارکوں کو بعض دن مردوں کے لیے کھولنے اور بعض دن خواتین کے لیے مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ تاہم اس اصول کا اطلاق کھلی جگہوں اور عوامی حماموں سمیت عام طور پر تمام عوامی پارکوں پر پہلے سے ہوتا ہے۔
خواتین کی آزادی پر وسیع تر قدغنوں کا حصہ:گزشتہ برس افغانستان سے نیٹو افواج کے اچانک انخلاء کے بعد طالبان کے لیے اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار ہو گئی تھی اور تبھی سے سخت گیر طالبان حکمرانوں نے لڑکیوں کو ثانوی تعلیم حاصل کرنے سے بھی محروم کر دیا۔ حالانکہ گروپ نے پہلے اس بات کے اشارے دیے تھے کہ وہ مارچ سے لڑکیوں کے تمام ہائی اسکول کھول دیں گے تاہم اب تک اس پر عمل نہیں ہوا۔خواتین کے حقوق کے لیے کئی بار مظاہرے بھی ہوئے، تاہم طالبان حکام نے خواتین کی تعلیم، روزگار اور آزادی کے حقوق کے لیے احتجاج کرنے والے کارکنوں کو بھی کچل دیاہے۔ اطلاعات کے مطابق خواتین کے قتل میں بھی اضافہ ہوا ہے جبکہ قاتلوں کو سزا بھی نہیں ملتی ہے۔طالبان گروپ نے خواتین سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ کسی مرد رشتہ دار کے بغیر گھر سے نہ نکلیں اور اپنے چہرے کو ڈھانپ کر رکھیں۔ خواتین کو عوامی خدمات کے بھی بہت سے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے، البتہ تعلیم، صحت اور پولیس کے بعض ایسے شعبوں میں انہیں کام کرنے کی اجازت ہے، جہاں مردوں کی بھرتی نہیں کی جا سکی ہے۔گزشتہ اگست میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ افغانستان میں، خواتین اور لڑکیوں میں بڑھتی ہوئی خطرناک صورتحال، ناامیدی اور بے چینی کی وجہ سے خواتین میں خود کشی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

Related Articles