سعودی عرب میں یونیورسٹی کے ڈائریکٹر کا 500 ملین ریال کے غبن کا اعتراف
ریاض،اکتوبر۔سعودی عرب میں انسداد بدعنوانی کمیشن [انٹیگریٹی کمیشن] نے کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی کے ڈائریکٹر عبدالرحمٰن بن عبید الیوبی کے کیس کے بارے میں نئی تفصیلات کا انکشاف کیا ہے، جنہیں مالی اور انتظامی بدعنوانی کے معاملات میں برطرف کرنے کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔اپنی رپورٹ میں اینٹی کرپشن کمیشن کی تحقیقات میں عبید الیوبی نے اعتراف کیا کہ اس نے 500 ملین ریال سے زیادہ رقم محفوظ کر رکھی تھی۔ وہ اس رقم کو قومی خزانے میں جمع کرانے کی تیاری کررہے تھے۔انسداد بدعنوانی کمیشن کے سرکاری ترجمان احمد الحسین نے ’العربیہ‘ چینل کو بتایا کہ یونیورسٹی کے ڈائریکٹر کی جانب سے بدعنوانی اور مالی اور انتظامی بدعنوانی کے بارے میں ان کے پاس موجود معلومات کافی پرانی ہیں۔انسداد بدعنوانی کمیشن کے مطابق اس نے شواہد کی چھان بین کی۔ اس دوران معلوم ہوا کہ شاہ عبدالعزیزیونیورسٹی کے ڈائریکٹرعبدالرحمان بن عبید الیوبی مالی اور انتظامی نوعیت کی بدعنوانی میں ملوث ہیں۔انہوں نے اپنے اس اہم عہدے اور طاقت کا غلط استعمال کیا اور انہوں نے مجموعی طور پر پانچ سو ملین ریال کی رقم کی خورد برد کی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ کارروائی مکمل ہوتے ہی ضروری اقدامات کیے گئے اور کافی شواہد اکٹھے کیے گئے۔اس کے بعد ملزم کو گرفتار کر کے پوچھ گچھ کی گئی۔انسداد بدعنوانی کمیشن کے مطابق الیوبی نے اپنے خلاف الزامات کو تسلیم کیا۔ غبن کی گئی رقم 500 ملین ریال سے تجاوز کر گئی، ملزم نے کمیشن کو بتایا کہ وہ یہ رقم قومی خزانے میں جمع کرانے کے لیے تیار ہیں۔الحسین نے نشاندہی کی کہ تحقیقات میں اس کیس میں ملوث دیگر افراد کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ تحقیقات کا عمل ابھی جاری ہے اور ان کے خلاف قانونی اقدامات کیے جائیں گے۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ ایسے معاملات میں ملزمان کے خلاف متوقع سزاؤں کا تعین مجاز عدلیہ کرتی ہے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ اس کیس میں ملزم کو دس سے پندرہ سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔قابل ذکر ہے کہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے جمعرات کو شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالرحمٰن الیوبی کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا حکم جاری کیا اور انہیں تحقیقات کے لیے انسداد بدعوانی کمیشن کے حوالے کیا گیا تاکہ ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔شاہی حکم انٹیگریٹی کمیشن کے پیش کردہ شواہد کی بنیاد پر آیا جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ ملزم نے ذاتی مفاد کے لیے عہدے کے اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھانے یونیورسٹی کے فنڈز میں غبن، منی لانڈرنگ اور جعلسازی کے جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔