تہران کی ایون جیل میں آتش زدگی سے آٹھ قیدی، ہلاک متعدد زخمی
تہران،اکتوبر۔ایران کی عدلیہ نے پیر کے روز کہا ہے کہ تہران ایون جیل میں آگ بھڑک اٹھنے سے آٹھ قیدی ہلاک اور 61 زخمی ہو گئے۔ اس جیل میں زیادہ تر سیاسی قیدیوں اور حکومت مخالفین کو رکھا جاتا ہے۔عدلیہ کی نیوز ایجنسی نظام نے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان قیدیوں کی موت کا سبب اتوار کو ہونے والا واقعہ تھا جس میں وہ زخمی ہو گئے تھے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ مرنے والے قیدی چوری کے الزام میں جیل کاٹ رہے تھے۔سرکاری ٹیلی ویڑن نے اتوار کو ویڈیو نشر کی جس میں بظاہر یہ دکھایا گیا تھا کہ جیل میں صورت حال پر قابو پا لیا گیاہے۔ عدلیہ نے کہا ہے کہ ہلاک ہونے والے قیدیوں کی ہلاکت دھوئیں کی وجہ سے دم گھٹںنے سے ہوئی جب کہ زخمیوں میں سے چار کی حالت نازک ہے۔یہ آگ ہفتے کے روز اس وقت بھڑک اٹھی جب کہ ملک بھر میں مہساامینی کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے خلاف مظاہرے اپنے پانچویں ہفتے میں داخل ہو چکے ہیں۔ مہسا کو اخلاقی پولیس نے اس الزام میں گرفتار کیا تھا کہ اس نے اپنے سرکے بالوں کو قواعد کے مطابق ڈھانپا ہوا نہیں تھا۔ایران کے سرکاری میڈیا نے بتایا کہ جیل میں لگنے والی آگ کو کئی گھنٹوں کی تگ و دو کے بعد بجھا دیا گیاہے اور اس دوران کوئی بھی قیدی جیل سے فرار نہیں ہوا۔تہران کے گورنر محسن منصوری نے کہا کہ یہ آگ سلائی کی ایک ورکشاپ میں کچھ قیدیوں کے درمیان لڑائی کے باعث لگی۔ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے سنیچر کو ایک سینئر سیکیورٹی اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ ایک وارڈ میں قیدیوں اور جیل کے اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ اہلکار نے بتایا کہ قیدیوں نے جیل کی وردیوں سے بھرے گودام کو آگ لگا دی، جس کی وجہ سے آگ لگ گئی۔ انہوں نے کہا کہ تنازع پر قابو پانے کے لییدوسرے قیدیوں سے الگ کر دیا گیا تھا۔امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے ، ہم ایون جیل سے متعلق موصول ہونے والی اطلاعات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اور اس سلسلے میں سوئس کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ایران غلط طریقے سے حراست میں رکھے گئے ہمارے شہریوں کی حفاظت کا مکمل ذمہ دار ہے، جنہیں فوری طور پر رہا کیا جانا چاہیے۔ایون جیل میں قیدیوں کو سیکیورٹی سے متعلق الزامات کا سامنا ہے جن میں دوہری شہریت والے شہری بھی شامل ہیں۔ انسانی حقوق کے گروپ قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کا الزام عائد کرتے رہتے ہیں۔ یہ جیل اس حوالے سے بھی شہرت رکھتی ہے کہ اس میں سیاسی قیدیوں کے ساتھ ساتھ ان قیدیوں کو بھی رکھا جاتا ہے جن کا تعلق مغربی دنیا سے ہوتا ہے اور ایران بین الاقوامی مذاکرات میں سودے بازی کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔ایون میں دوہری شہریت رکھنے والے ایک قیدی شہاب دلیلی کی اہلیہ ناہید دلیلی نے وی او اے کی فارسی سروس کو بتایا کہ اس نے اپنے شوہر سے بات کی ہے اور وہ صحت مند ہیں۔آن لائن ویڈیوز میں جیل کے علاقے میں فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں۔انٹرنیٹ پر موجود آتشزدگی کی ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ الارم کی آواز کے دوران دھوئیں کے بادل آسمان کی جانب بلند ہو رہے ہیں اور گولیاں چلنے کی آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں۔اس کے فوراً بعد ویڈیوز میں جیل کے باہر سڑک پر ایک احتجاجی مظاہرہ بھی دکھایا گیا ہے جس میں بہت سے لوگ ڈکٹیٹر مردہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں۔ ان کا اشارہ سپریم لیڈر ِ آیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف تھا۔ان ویڈیوز میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے جیل میں گولے داغے جانے کا منظر بھی دکھائی دیتا ہے جس کے بعد کم از کم دو دھماکے سنائی دیتے ہیں۔ فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ایرانی سیکیورٹی فورسز نے کس قسم کے گولے استعمال کیے تھے۔تہران کے پراسیکیوٹر علی صالحی نے کہا کہ جیل کی بدامنی کا مہسا امینی کی موت کے بعد ملک بھر میں جاری مظاہروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ 17 ستمبر کو ایران میں مظاہروں کے آغاز کے بعد سے اب تک 200 سے زیادہ مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں، ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ مظاہروں میں دو درجن سے زائد سیکیورٹی فورس کے ارکان بھی مارے گئے ہیں۔ایرانی سوشل میڈیا پوسٹس میں جیل میں آیتشزدگی اور دھماکوں کے بارے میں سرکاری میڈیا اکاؤنٹس کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ ایوین کے ایک سابق قیدی اور انسانی حقوق کے کارکن آتنا دائمی نے اتوار کو ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ عام طور پر تمام قیدیوں کو ان کے وارڈز میں بھیج دیا جاتا ہے اور ورکشاپس غروب آفتاب تک بند ہو جاتی ہیں۔جب کہ آتشزدگی کے بارے میں سرکاری ٹی وی پر نشر کی گئی ایک ویڈیو میں ایک کمرے میں جلی ہوئی دیواریں اور چھتیں دکھائی دے رہی ہیں جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ جیل کی سلائی ورکشاپ کی بالائی منزل تھی۔