یوکرین: 1962 کے ’کیوبا میزائیل بحران‘ کے بعد ایٹمی جنگ کا سب سے زیادہ خطرہ اب ہے – بائیڈن
واشنگٹن،اکتوبر۔صدر بائیڈن نے کہا کہ جب روسی رہنما ٹیکٹیکل جوہری، حیاتیاتی یا کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی بات کرتے ہیں تو وہ مذاق نہیں کر رہے ہیں۔امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ جوہری آرماگیڈان (حق و باطل کا معرکہ) کا خطرہ 1962 کے کیوبا کے میزائل بحران کے بعد اپنی بلند ترین سطح پر ہے۔صدر بائیڈن نے کہا کہ جب روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین میں ناکامیوں کا سامنا کرنے کے بعد ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی بات کی تو وہ مذاق نہیں کر رہے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ روسی صدر پوتن کے جنگ سے نکلنے کا راستہ پتہ لگانے کی کوشش کر رہا ہے۔امریکہ اور یورپی یونین نے پہلے ہی کہا ہے کہ صدر پوتن کی جوہری تباہی کی دھمکی کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔تاہم، ماسکو کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی کے باوجود امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ امریکہ کو ایسے کوئی آثار نظر نہیں آئے کہ روس فوری طور پر جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔یوکرین، بشمول ان چار خطوں کو جو روس نے حال ہی میں غیر قانونی طور پر الحاق کیا تھا، روس کے زیر قبضہ علاقوں کو آزاد کرا رہا ہے۔کئی مہینوں سے امریکی حکام خبردار کر رہے ہیں کہ اگر روس کو میدان جنگ میں دھچکا لگا تو وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال کا سہارا لے سکتا ہے۔صدر بائیڈن نے کہا کہ جب روسی رہنما ٹیکٹیکل جوہری، حیاتیاتی یا کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں بات کرتے ہیں تو وہ مذاق نہیں کر رہے تھے – کیونکہ ان کی فوج، آپ کہہ سکتے ہیں، نمایاں طور پر مایوس کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے ۔مسٹر بائیڈن نے اپنی جماعت ڈیموکریٹس کے چند ساتھیوں کو بتایا کہ کیوبا کے میزائل بحران کے بعد پہلی بار، ہمیں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا براہ راست خطرہ ہے، اگر حقیقت میں واقعات ایسے ہی ہوتے رہے جیسا کہ ہو رہے ہیں۔ ہمیں کینیڈی اور کیوبا کے میزائل بحران کے بعد سے آرمیگاڈان (معرکہ خیر و شر) کے امکان کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اکتوبر 1962 میں 13 روزہ واقعہ نے اْس وقت کی دو اہم سپر پاورز – سوویت یونین اور امریکہ – کو تصادم کے راستے پر لا کھڑا کیا تھا جس کے نتیجے میں جوہری ہتھیاروں سے تباہی کے امکانات بڑھ گئے تھے۔ یہ بحران اس وقت شروع ہوا تھا جب سوویت رہنما نکیتا خروشچیف نے ایک وعدہ توڑا اور کیوبا میں جوہری ہتھیار نصب کیے – جن کے نشانے پر واشنگٹن ڈی سی اور نیویارک شہر آگئے تھے – جوہری ہتھیاروں کی یہ تعیناتی امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے لیے ایک بڑی آزمائش تھی۔ مسٹر کینیڈی نے کیوبا پر ایک بھرپور حملے کے منصو بے پر غور کیا، لیکن عملی طور پر صرف بحری ناکہ بندی کا فیصلہ کیا، اور پس پردہ سوویت یونین کو میزائلوں کو ختم کرنے اور انہیں واپس روس لے جانے پر مجبور کر دیا۔ہمارے روس کے ایڈیٹر اسٹیو روزنبرگ نے نشاندہی کی کہ گزشتہ جمعہ کو ایک تقریر کے دوران روسی صدر پوتن نے کہا کہ امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جاپان کے خلاف جوہری ہتھیاروں کا استعمال کرکے ایک نظیر قائم کی تھی – ایک ایسا تبصرہ جس پر مغربی حکومتوں کا دھیان نہیں گیا ہوگا۔مسٹر پوٹن نے روسی سرزمین کی حفاظت کے لیے ہر ممکن طریقے استعمال کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔یہاں تک کہ جب مسٹر پوتن نے یوکرین کے چار علاقوں – لوہانسک، ڈونیٹسک، زپوریزہیا اور خرسن کو باضابطہ طور پر الحاق کرنے کے حتمی کاغذات پر دستخط کیے – کیئو کی افواج ان علاقوں کے اندر آگے بڑھنے کا دعویٰ کر رہی تھی۔لاکھوں روسی مرد یوکرین میں لڑنے کے لیے تیار ہونے کا انتظار کرنے کے بجائے روس سے فرار ہو رہے ہیں۔یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اس سے قبل ماسکو کے جوہری خطرات کو روسی حکام اور پروپیگنڈا کرنے والوں کا مستقل بیانیہ کہہ کر مسترد کر چکے ہیں۔کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے پال سٹرونسکی نے بی بی سی کو بتایا کہ روس کی غیر مستحکم بیان بازی کا مقصد مغرب کو دھمکانا ہے۔خود روس میں ماسکو کے جوہری خطرات کے خلاف کچھ منفی ردعمل بھی نظر آیا ہے۔ ملک کے مرکزی دھارے کے اخبار نزاویسیمایا گیزیٹ (Gazeta Nezavisimaya ) کے ایک اداریے میں ایٹمی بٹن کے بارے میں بات کرنے کے لیے سینئر روسی حکام پر شدید تنقید کی گئی تھی۔ ایسی بات کے بارے میں سوچنے اور ایسے بیانات دینے سے بھی جوہری تصادم کے امکان کو ایک حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔ روس کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے جمعرات کو صحافیوں کو بتایا کہ ماسکو نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا ہے کہ جوہری جنگ کبھی نہیں چھیڑنی چاہیے ۔مسٹر بائیڈن نے یہ تبصرہ اْس وقت کیا تھا جب وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی چندہ جمع کرنے کی تقریب کے سلسلے میں میڈیا مغل، روپرٹ مرڈوک کے بیٹے جیمز مرڈوک کے نیویارک کے گھر پر آئے ہوئے تھے۔