بال منڈھوا کر ماں کی قبر پر کھڑی ایک اور ایرانی خاتون نے دیدیا احتجاجی پیغام

تہران،اکتوبر۔ایران میں خاتون مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کے حراست میں ہلاکت کے سے شروع احتجاجی تحریک تیسرے ہفتے میں داخل ہوگئی ہے۔احتجاجی مظاہروں میں کم از کم 83 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود ایرانی حکام کے رویہ میں نرمی آنے کے بجائے سختی آتی جا رہی ہے۔حکام نے سوشل میڈیا پر موجود تمام معروف شخصیات، فنکاروں اور بااثر شخصیات پر سخت پابندیاں لگا دی ہیں تاکہ عام لوگوں میں خوف و ہراس پھیلایا جاسکے۔تاہم مظاہرین بھی تاحال پرامن ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ سڑکوں پر نکلنے کے ساتھ ساتھ شہریوں نے احتجاج کے نت نئے طریقوں کو اپنانا شروع کر رکھا ہے۔انہیں نئے طریقوں میں سے ایک خاموش طریقہ کسی خاتون کی جانب سے سر کے بال منڈھوا کر تصویر کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنا بھی ہے۔ اب ایک اور خاتون نے سر کے بال کٹوا کر سکارف گلے میں لیکر اپنی ماں کی قبر پر کھڑے ہوکر اپنی تصویر شیئر کردی اور حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا ہے۔دس روز قبل ایرانی کردستان کے شہر کرمانشاہ میں مظاہروں کے دوران تین بچوں کی 60 سالہ خاتون مینو مجیدی کو سکیورٹی فورسز نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اب احتجاج کرتے ہوئے اس کی بیٹی نے اپنی ماں کی قبر پر کھڑی ہوکر تصویر کھچوائی اور حکمرانوں کو اپنا احتجاجی پیغام بھیج دیا ہے۔تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان عورت اپنی آنجہانی والدہ کی قبر کے پاس کھڑی ہے، سیاہ لباس پہنے اور کندھوں پر سفید سکارف ڈالے، منڈائے ہوئے سر کے ساتھ وائرل ہونے والی خاتون کی اس تصویر نے ایران بھر میں عوام کو غم و غصہ میں مبتلا کر دیا ہے۔اداس لڑکی کی یہ تصویر چند گھنٹوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ سینکڑوں ایرانی سماجی کارکنوں نے خاتون کے دلیرانہ موقف کو خراج تحسین پیش کیا اور اس تصویر کو اگے شیئر کیا۔ لوگوں نے اس تصویر کو ایک شاندار خاموش احتجاج قرار دیا۔نوجوان کرد خاتون مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت 16 ستمبر کو ہوئی تو ایران بھر میں مظاہرے شروع ہوگئے۔ یہ احتجاج اب تک جاری ہے۔ مہسا امینی کے ایکسرے رپورٹ سے ظاہر ہوا کہ اس کی موت تشدد کے باعث ہوئی تو مظاہروں میں مزید شدت آ گئی۔حکام نے مہسا امینی پر تشدد سے انکار کیا ہے۔ ان مظاہروں میں بہت سی خواتین نے اپنے سکارف جلائے ا ور سر کے بال بھی کٹوائے ہیں۔ 2019 کے بعد یہ ایران میں ہونے والے سب سے بڑے مظاہرے ہیں۔حکومت ان مظاہروں کو فساد پھیلانے کی کوشش قرار دے رہی تو دوسری طرف بہت سے ایرانی ہدایت کاروں، کھلاڑیوں، موسیقاروں اور اداکاروں حتی کے قومی فٹ بال ٹیم نے مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے۔

 

Related Articles