صومالیہ کی حکومتی فورسز نےالشباب کے 100 جنگجو ہلاک کر دیے

موغہ دیشو،ستمبر۔صومالیہ فوج کے کمانڈروں نے بتایا ہے کہ جمعے اور اتوار کے درمیان کارروائیوں میں ان کی فورسز نے عسکریت پسند گروپ الشباب کے ایک سو سے زیادہ جنگجو ہلاک کر دیے ہیں۔ اور ایسے دو دیہات واگزار کرا رلیے ہیں جو گزشتہ ایک دہائی سے الشباب کے قبضے میں تھے۔عینی شاہدین نے بھی بتایا ہے کہ حکومت سے منسلک ایک صومالی ملیشیا نے الشباب گروپ کے کم از کم 45 جنگجووں کو ہلاک کر دیا ہے، جب کہ ملک کے وسطی علاقوں میں شورش پسندوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے شہریوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔جنگجووں کو ریاست ہرشا بیلے کے علاقے ہیرن میں ہفتے کے روز ایک لڑائی کے بعد ہلاک کیا گیا جہاں اس ماہ الشباب اور وفاقی حکومت سے منسلک نئی توسیع شدہ ملیشیاوں کے درمیان کافی لڑائی ہوئی ہے۔صومالیہ کی نیشنل آرمی نے بتایا کہ پیر کے روز فوجوں نے سنٹرل ہیران کے علاقے میں ویک اینڈ پر آپریشن شروع کیا تھا۔فوج کے ترجمان نے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہفتے کے روز صومالی فوج اور الشباب کے درمیان شدید لڑائی ہوئی بالخصوص ایبورے اور یاسومان کے دیہاتوں میں۔ جہاں بالتریب 75 اور 30 جنگجو ہلاک ہو گئے۔القاعدہ سے منسلک ایک اسلامی گروپ الشباب 2006 سے صومالیہ کی کمزور مرکزی حکومت کے خلاف لڑ رہا ہے۔ وہ سخت تشریح والے شرعی قوانین نافذ کرنا چاہتا ہے۔اس سے قبل ایک خبر میں بتایا گیا کہ صومالی حکومت کے حامی ملیشیاز نیاختتام ہفتہ الشباب کے 45 جنگجووں کے سرقلم کر دیے ہیں۔رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ان کا یہ ردعمل اس لئے سامنے آیا ہے کہ الشباب نے ہیرن کے علاقے میں تیزی سے گھروں کو جلایا ہے، کنویں تباہ کیے ہیں اور شہریوں کے سر قلم کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چالیس سالوں میں بدترین خشک سالی رہی جس کے درمیان حکومت کی طرف سے ٹیکس کے مطالبات نے بھی مزید رہائشیوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا ہے۔ہیرن کے ایک بزرگ احمد عبداللہ کا کہنا تھا کہ الشباب طاقتور گروہ نہیں ہے۔ بقول ان کے الشباب گروپ صرف لوگوں کو جلاتا ہے، ان کے سر قلم کرتا ہے اور صرف دہشت پھیلانے کے لیے ان کے سر سڑکوں پر رکھ دیتا ہے۔خبروں کے مطابق انہوں نے بتایا کہ ہم بھی اب وہی کر رہے ہیں۔ ہم نے الشباب کے جنگجوؤں کے سر قلم کرنے کا حکم دیا ہے۔ٹیلی گرام پر وسیع پیمانے پر شیئر کی جانے والی ویڈیوز میں کم از کم دو مبینہ الشباب جنگجوؤں کے سر قلم کیے گئے اور درجنوں مزید لاشیں سرخ اور سفید نشان زدہ سکارف میں دکھائی دے رہی ہیں، جن کے چہروں پر مردنی چھائی ہوئی ہے۔ ان میں سے کچھ جنگ میں ہلاک ہوئے۔خبروں کے مطابق آزادانہ طور پر ویڈیوز کی صداقت کی تصدیق نہیں کی، لیکن سر قلم کرنے والے تین گواہوں نے کہا کہ وہ حقیقی ہیں۔ عبدل سمیت سات دیگر رہائشیوں نے بتایا کہ کنبہ کے افراد وہاں موجود تھے اور انہوں نے ان کی موت کی تصدیق کی۔تینوں گواہوں نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔ایک رہائشی حلیمہ اسماعیل نے کہا الشباب نے ہمیں جہنم میں دھکیل دیا۔ تو ہمارے لوگوں نے خود کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیا۔ میری بیٹی بھی فرنٹ لائن میں لڑ رہی ہے، اس کے کندھے پر اے کے 47 رائفل ہے۔صومالی وزیر داخلہ احمد ماؤلم فیقی نے فوری طور پر تبصرے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔خبروں کے مطابق الشباب کے ترجمان کی جانب سے بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔رواں ماہ کے اوائل میں الشباب کے جنگجوؤں نے 18 شہریوں کو قتل کر دیا تھا اور خوراک کی امداد والے ٹرکوں کو تباہ کر دیا تھا۔ اگست میں ایک ہوٹل پر حملے میں 20 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

Related Articles