علی خامنہ ای کے بعد کیا ہو گا، جانشین کیسے منتخب ہو گا؟

تہران،ستمبر۔ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے 33 سال تک ایران پر حکمرانی کی ہے، مگر اب ملنے والی رپورٹس ایسی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صحت کی بدترین حالت میں ہیں۔ اس وجہ سے ہو سکتا ہے کہ ان کی وجہ سے ایران پر حکمرانی کے حوالے سے ایک خلا پیدا جائے۔خامنہ ای جو کچھ عرصے سے علالت کا شکار ہیں۔ 1981 میں ایک قاتلانہ حملے کے دوران جزوی طور پر مفلوج ہو گئے تھے۔ تب سے ان کی یہ جزوی معذوری ان کے ساتھ رہی۔ مگر اس سے ان کے عمومی امور میں کوئی خاص خلل نہیں آیا۔دو ہزار چودہ میں آیت اللہ علی خامنہ ای ایک بار پھر سخت علالت کی زد میں آ گئے۔ انہیں پروسٹیٹ کا کینسر ہو گیا تھا۔ جس کی سرجری ہوئی اور وہ صحت مند ہو کر معمولات زندگی کی طرف آ گئے۔ بیاسی 82 سالہ خامنہ ای اب پھر بیمار ہوئے ہیں، بیماری کا یہ حملہ سخت بتایا جاتا ہے۔ ایک اور مسئلہ بڑھاپا بھی ہے۔ اس وجہ سے ان کا عوام کے سامنے آنا بھی متاثر ہو چکا ہے۔بیماری کے اس حملے کے دوران پچھلے ہفتے خامنہ ای کو سرجری کے عمل سے بھی گذرنا پڑا۔ بتایا جاتا ہے کہ گذشتہ ہفتے ان کی صحت زیادہ بگڑ گئی تھی۔ اسی لیے سرجری ضروری ٹھہری۔ اب ماہر ڈاکٹروں کی ایک اعلیٰ سطح کی ٹیم ان کی دکھ بھال پر مامور ہے۔ چوبیس گھنٹے وہ معالجین کی نگرانی میں ہیں۔ایرانی سپریم کمانڈر کے تین دہائیوں سے زیادہ کے دور اقتدار میں مشرق وسطیٰ کے اس ملک نے دنیا کے طاقتی مراکز کے ساتھ تعلقات کی ایک خاص شکل رکھی۔ جب بھی جلد یا بدیر ایرانی رہبر کی موت ہو گی تو پھر ہی اندازہ ہو سکے گا ایران اس صورت ھال کے لیے کس حد تک تیار تھا یا اس نے اپنے آپ کو کتنا تیار کر رکھا تھا۔ایران کی سب سے طاقتور شخصیت کے طور پر اگر خامنہ ای کا انتقال ہو جاتا ہے تو اہم سوال یہ ہو گا کہ اب کیا ہو گا؟ امریکی انٹر پرائز انسٹیٹیوٹ فار پبلک پالیسی ریسرچ سے وابستہ ایرانی امور کے ماہر میخائیل روبن کے بقول کامنہ ای کی موت کی صورت میں کئی آپشنز ہو سکتی ہیں۔یہ عبوری مدت کا انتظام تیزی سے بھی آگے بڑھ سکتا ہے، آہستہ روی سے بھی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بالکل ایسا نہ ہو۔ یاد رہے ایرانی سپریم لیڈر کے منصب پر خامنہ ای کی تقرری ایرانی انقلاب کے بعد دوسری تقرری تھی، ان سے پہلے ایرانی انقلاب کے روح رواں آیت اللہ خمینی اس منصب پر فائز تھے۔ آیت اللہ خمینی کے انتقال کے بعد خامنہ ای نے ان کی جگہ لی۔ اس منصب کے لیے انہیں 88 علما کے ایک فورم ماہرین کی اسمبلی کے طور پر منتخب کیا۔ بعد ازاں اس کی توثیق اور منظوری وزارت خبرگان اور پاسدران انقلاب نے کی۔اس مجلس کے ارکان ایران میں ہر آٹھ سال بعد منتخب کیے جاتے ہیں۔ لیکن امیدوار کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے امیدوار بننے کی منظوری سرپرستوں کی مجلس دی گئی ہو۔ اس مجلس کے ارکان بالواسطہ یا بلا واسطہ ایرانی سپریم لیڈر کی مرضی سے ہی سامنے آتے ہیں۔ اس طرح سپریم لیڈر کا دونوں مجالس پر اثر و رسوخ گہرا ہوتا ہے۔گذشتہ تین دہائیوں کے دوران آیت اللہ علی خامنہ ای نے کوشش کی ہے کہ قدامت پسند لوگ ہی سرپرستوں کی مجلس میں منتخب ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا جب یہ مجلس ان کا جانشین چنے گی تو ان کی رہنمائی اور پسند ناپسند کا خیال رکھے گی۔ ایران کا سپریم لیڈر منتخب ہونے والا فرد اس منصب پر تاحیات بھی رہ سکتا ہے۔

Related Articles