افغانستان سے فوج کے انخلا کے خلاف تھا اور اب بھی اس پرقائم ہوں: میک کینزی
واشنگٹن،اگست۔امریکی سینٹرل کمانڈ کے سابق کمانڈر کینتھ میکنزی نے اتوار کو ایک بڑا سرپرائز بیان دیا۔انہوں نے کہا کہ میں نے صدر جو بائیڈن کو مشورہ دیا تھا کہ وہ گذشتہ موسم گرما میں افغانستان سے تمام امریکی افواج کو نہ نکالیں۔میک کینزی نے فاکس نیوز سنڈے کو بتایا کہ پینٹاگان نے وائٹ ہاؤس پر واضح کر دیا تھا کہ مکمل انخلا تقریباً یقینی طور پر طالبان کے فوری قبضے کا باعث بنے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ بہترین آپشن یہ ہوتا کہ طالبان کو دور رکھا جائے اور اگر بائیڈن نے وہاں فوجیوں کا ایک چھوٹا دستہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہوتا تو امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت ہی اقتدار میں رہتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں یقین تھا کہ اگر ہم نے اپنی فوجیں ہٹا لیں تو کابل کا سقوط ہوجائے گا۔ سوال یہ تھا کہ کابل کا سقوط کب ہوگا۔ یہ افغانستان میں سینٹرل کمانڈ اور ہمارے ماتحتوں کا مستقل موقف تھا۔انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ میرے تجزیوں نے کمانڈ کے سلسلے کو آگے بڑھایا ہے اور مجھے یقین ہے کہ صدر نے ان سے بات کی ہے۔ لیکن صدر کو بہت وسیع تر غور و فکر کی بنیاد پر فیصلے کرنے چاہئیں۔ کابل میں القاعدہ کے رہ نما ایمن الظواہری کی ڈرون سے ہلاکت کے بعد یہ سوالات اٹھائے گئے کہ کیا طالبان ایک بار پھر القاعدہ کو افغانستان کو محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے دیں گے۔اس امکان پرمیک کینزی نے مشورہ دیا کہ طالبان اور القاعدہ کے درمیان یہ تعاون امریکی افواج کو افغانستان واپس جانے پر مجبور کر سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ امریکا کے طویل مدتی مفاد میں ہے کہ وہ افغانستان میں پرتشدد انتہا پسندی کے مراکز کو بڑھنے اور پھیلنے نہ دے۔ میرے خیال میں طالبان کی موجودہ حکومت کے تحت شاید ایسا ہی ہو گا۔ جنرل میکنزی کا یہ انٹرویو افغانستان سے امریکی انخلاء کے ایک سال مکمل ہونے پر سامنے آیا ہے۔ اس انخلا نے امریکی تاریخ کی سب سے طویل جنگ کا خاتمہ کیا مگر اس کے نتیجے میں افغانستان ایک بار پھر طالبان کے ہاتھوں میں چلا گیا۔