طالبان عہدیداروں پر سفری پابندی بارے سلامتی کونسل منقسم
اقوام متحدہ [امریکا]،اگست۔سفارتی ذرائع نیاطلاع دی ہیکہ افغان طالبان کی سفری پابندی سے استثنیٰ کی مدت میں توسیع پر پیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان کے درمیان اختلاف برقرار رہے۔ اس استثنیٰ سے افغان طالبان کے اہلکار فائدہ اٹھا رہے تھے۔سنہ 2011 میں سلامتی کونسل کی طرف سے منظور کی گئی ایک قرارداد کے تحت 135 طالبان رہ نماؤں پر پابندیاں عائد ہیں جن میں ان کے اثاثے منجمد کرنا اور انہیں سفر کرنے سے روکنا شامل ہے۔لیکن اقوام متحدہ نے ان میں سے 13 رہ نماؤں کو سفری پابندی سے استثنیٰ دے دیا تھا۔ اس استثنیٰ کی باقاعدہ تجدید کی جاتی ہے تاکہ وہ افغانستان سے باہر دیگر ممالک کے حکام سے ملاقات کر سکیں۔درحقیقت سفری پابندی سے مستثنیٰ رہ نماؤں کی فہرست میں 15 نام شامل تھے، لیکن افغانستان کو تفویض کردہ پابندیوں کی کمیٹی نے جو کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 15 ارکان پر مشتمل ہے، جون میں اسے کم کر کے 13 ناموں تک محدود کر دیا جب کہ اس نے دو کو سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ پیش رفت افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور تعلیم پر پابندیوں کی کے دوران سامنے آئی۔سفارتی ذرائع کے مطابق متعدد مغربی ممالک سفری پابندی سے مستثنیٰ افراد کی فہرست میں مزید کمی کرنا چاہتے ہیں، تاکہ عسکریت پسند تحریک کو ایک سال قبل اقتدار میں آنے کے بعد کیے گئے وعدوں کا احترام نہ کرنے پر سزا دی جا سکے۔دوسری جانب چین اور روس بغیر کسی تبدیلی کے استثنیٰ میں توسیع کی حمایت کرتے ہیں۔امریکا نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ اس نے کابل میں ایک ڈرون حملہ کیا تھا جس میں القاعدہ کے رہ نما ایمن الظواہری مارے گئے تھے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی چینی صدر نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ یہ چھوٹ اب بھی ضروری ہے ۔ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ انسانی حقوق کو طالبان حکام کے بیرون ملک سفر سے جوڑنا نقصان دہ ہوسکتا ہے۔