آسیان کا اجلاس، میانمار میں تشدد اور یوکرین جنگ کے سائے میں

نوم پن،اگست۔جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس کمبوڈیا کے دارالحکومت نوم پن میں ہو رہا ہے۔ اس بار میانمار میں جاری تشدد اور خطے کو چین کیبڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے لاحق خطرات جیسیموضوعات کومرکزی اہمیت حاصل ہے۔ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز ASEAN کے وزرائے خارجہ امریکہ، چین، روس اور دیگر ممالک کے چوٹی کے سفارتکاروں کے ساتھ میانمار کی حالیہ غیر مستحکم صورتحال کے علاوہ یوکرین پر روسی حملے اور چین کے خطے میں بڑھتے ہوئے عزائم کے بارے میں مذاکرات کریں گے۔ نوم پن میں منعقد ہونے والے اس اجلاس میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور ان کے روسی ہم منصب سیرگئی لاوروف بھی شرکت کر رہے ہیں۔ خطے میں ایک ماہ کے اندر ان دونوں کی ایک ہی وقت میں دو بار موجودگی قابل ذکر ہے تاہم یہ امر ہنوز واضح نہیں کہ آیا امریکی اور روسی وزرائے خارجہ نوم پن میں ایک دوسرے سے براہ راست ملاقات کریں گے۔ گزشتہ ماہ یعنی جولائی کے اوائل میں انڈونیشی جزیرے بالی میں جی 20 گروپ کے اجلاس کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور روسی ویزر خارجہ سیرگئی لاورووف موجود تھے مگر دنوں وزراء￿ نے علیحدہ سے ایک دوسرے کے ساتھ کوئی ملاقات نہیں کی تھی۔ روس کی جانب سے یوکرین پر حملے سے پہلے سے لے کر اب تک بلنکن اور لاوروف کی براہ راست بات چیت گزشتہ جمعے کو بذریعہ ٹیلی فون ہوئی تھی۔ اس گفتگو میں دیگر امور پر تبادلہ خیال کے علارو امریکی وزیرر خارجہ نے ماسکو پر زور دیا تھا کہ وہ امریکی قیدیوں برٹنی گرینر اور پاؤل ویلن کی رہائی کے معاہدے کو تسلیم کرے۔ ASEAN کے وزرائے خارجہ کی کمبوڈیا کے دارالحکومت میں ہونے والے اجلاس میں چینی وزیر خارجہ وانگ ڑی بھی شریک ہیں۔ بیجنگ حکومت پر اس وقت بہت سے ممالک کی طرف سے سفارتی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ روس کے ساتھ اپنی دوستی اور شراکت داری کو بروئے کار لاتے ہوئے یوکرین کے تنازعے کے خاتمے اور میانمار میں فوجی حکومت کے خاتمے اور سویلین حکومت کی واپسی کی کوششں کرے۔ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی اولین ترجیح اس وقت خطے میں امن اور استحکام کا قیام ہے۔فروری 2021 ء میں میانمار میں فوجی بغاوت کے ذریعے سویلین حکومت کے خاتمے کے بعد سے بڑے پیمانے پر احتجاج اور مسلح مزاحمت کا سلسلہ جاری ہے۔ ان حالات کے سبب پورا خطہ عدم استحکام اور امن کو لاحق خطرات سے دوچار ہے۔امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکرنینسی پیلوسی اپنے چار روزہ دورہ ایشیا کے پہلے مرحلے میں سنگاپور پہنچی ہیں تاہم ابھی بھی یہ واضح ہے نہیں ہے کہ آیا وہ تائیوان بھی جائیں گی یا نہیں؟ پیلوسی کے اس دورے کو امریکہ اور چین کے مابین کشیدگی میں اضافے کا سبب بھی سمجھا جا رہا ہے۔ وائٹ ہاؤس نے چین کو متنبہ کیا ہے کہ وہ امریکی کانگریس کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے ممکنہ دورہ تائیوان کے حوالے سے اپنی بیان بازی کو کم کر دے کیونکہ بیجنگ کے پاس کشیدگی بڑھانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ وائٹ ہاؤس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بالآخر یہ فیصلہ پیلوسی کو کرنا ہے کہ آیا انہیں تائیوان کا سفر کرنا ہے یا نہیں۔چینی وزارت خارجہ کی ترجمان زاؤ لیڑیان نے گزشتہ ہفتے امریکہ کو جنوب مشرقی ایشیائی خطے کے معاملات میں دخل اندازی سے خبردار کرتے ہرئے ایک بیان میں کہا تھا، آگ سے کھیلنے والے تباہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘‘ کمیونسٹ حکمرانی والا ملک چین تائیوان کو اپنا علاقہ سمجھتا ہے۔ بیجنگ حکومت دھمکی دے چْکی ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ طاقت کے ذریعے اس جزیرے پر دوبارہ اپنا دعویٰ دائر کر سکتی ہے۔ اْدھر امریکہ ون چائنا پالیسی‘‘ پر عمل پیرا ہے جس کے تحت وہ بیجنگ کو چینی حکومت تسلیم کرتا ہے اور دوسری جانب تائیوان کے ساتھ دفاعی تعلقات قائم کیے ہوئے ہے۔

Related Articles