83، سمراٹ پرتھوی راج: بالی وڈ کی بڑی فلمیں باکس آفس پر ناکام کیوں ہو رہی ہیں؟83، سمراٹ پرتھوی راج: بالی وڈ کی بڑی فلمیں باکس آفس پر ناکام کیوں ہو رہی ہیں؟

ممبئی،جولائی ۔ بالی وڈ، دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری ہے جو سالانہ سب سے زیادہ فلمیں بناتی ہے۔کورونا کی وبا کے دو سال بعد بھی بالی وڈ مشکلات کا شکار ہے۔ کورونا وبا کے آغاز سے پہلے کھچا کھچ بھرے سینما ہال اب وبا کے بعد دیکھنے کی توقعات پوری نہیں ہو پا رہیں اور فلم انڈسٹری کو اب تک کروڑوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔فلم دیکھنے والے اس بارے میں زیادہ باشعور ہو گئے ہیں کہ وہ اپنا پیسہ کہاں خرچ کر رہے ہیں۔باکس آفس کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ رواں سال کے پہلے چھ مہینوں میں ریلیز ہونے والی 20 قابل ذکر ہندی فلموں میں سے 15 فلمیں باکس آفس پر فلاپ ہوئی ہیں۔ان میں ملک کے بڑے سپر سٹارز کی فلمیں بھی شامل ہیں۔ جیسے رنویر سنگھ کی 83‘ اور ’جییش بھائی زوردار‘، اکشے کمار کی سمراٹ پرتھوی راج اور ’بچن پانڈے‘ اور کنگنا رناوت کی ’دھاکڑ‘۔ فلموں کے کاروبار پر خاص نظر رکھنے والے جوگندر ٹوٹیجا کہتے ہیں کہ ’ان فلموں کو تقریباً 700 سے 900 کروڑ کا نقصان ہوا ہے۔‘ٹوٹیجا کا خیال ہے کہ ’اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو اس سال سنیما ہالز کی کل آمدنی 450 ملین ڈالر سے زیادہ نہیں ہو گی۔ یاد رہے کہ سنہ 2019 میں باکس آفس پر فلموں نے تقریباً 550 ملین ڈالر کمائے تھے۔ فلموں کی خراب کارکردگی کی ایک وجہ اْن کا ناقص مواد بھی ہو سکتا ہے۔ایمکے گلوبل فنانشل سروسز کی ایک رپورٹ کے مطابق ’ایک وقت تھا جب کمزور مواد کے باوجود بڑے ستارے، اپنی فین فالوونگ کی بنیاد پر شائقین کو سینما ہالوں تک کھینچ لاتے تھے اور فلمیں اچھی خاصی کمائی کرتی تھیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ناظرین کی ترجیح بدل گئی ہے۔ اور وہ فلم کے مواد پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔‘لیکن فلمساز یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کووڈ سے پہلے باکس آفس پر چلنے والی درمیانی بجٹ اور سنجیدہ موضوع کی فلمیں بھی کووڈ کے بعد اچھا بزنس کیوں نہیں کر رہی ہیں؟ملک کے سب سے بڑے فلم سٹوڈیوز میں سے ایک ٹی سیریز کے مالک بھوشن کمار کا کہنا ہے کہ ناظرین اب فلم میں اچھا مواد اور بڑے اداکار دونوں دیکھنا چاہتے ہیں۔بھوشن کمار کی پروڈیوس کردہ ہارر کامیڈی فلم ’بھول بھولیا 2‘ اس سال کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلموں میں سے ایک رہی ہے۔پھر بھی وہ تسلیم کرتے ہیں کہ فلمساز مخمصے کا شکار ہیں۔ باکس آفس پر فلموں کے مسلسل پٹنے کی وجہ سے وہ یہ نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ کس قسم کی فلمیں شائقین کو پسند آئیں گی۔بھوشن کمار جیسے کئی پروڈیوسرز شائقین کی بدلتی ترجیحات کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ سٹریمنگ پلیٹ فارمز کی پہنچ اور تھیٹروں سے لوگوں کی بڑھتی ہوئی دوری کے ساتھ، باکس آفس پر فلم کو کامیاب بنانا پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ اوپر سے کووڈ نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔کمار کا خیال ہے کہ ریلیز کی بڑھتی ہوئی تاریخ، منسوخی اور کووڈ پروٹوکول کی وجہ سے فلم کا اوسط بجٹ 10 سے 15 فیصد بڑھ گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ٹکٹیں زیادہ مہنگی ہو گئی ہیں، تھیٹر کی گنجائش کم ہو گئی ہے اور وبا کے دوران بہت سی سکرینیں مستقل طور پر بند ہو گئی ہیں۔ایم کے گلوبل کے مطابق، اقربا پروری سے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزامات کے درمیان بالی وڈ مخالف سوشل میڈیا مہم نے بھی فلم انڈسٹری کو بڑا نقصان پہنچایا ہے، حالانکہ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ نقصان کتنا ہوا ہے۔ روایتی طور پر ساؤتھ انڈیا میں بننے والی فلمیں اپنے اپنے علاقوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔لیکن اب کچھ عرصے سے ہندی بیلٹ میں ان فلموں کے ہندی ڈب ورڑن کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ان فلموں نے یہاں بہت اچھا کام کیا ہے اور یہ باکس آفس کلیکشن کے معاملے میں بالی ووڈ فلموں کے برابر ہیں۔ ساؤتھ کی ایکشن سے بھرپور فلمیں جیسے ’کے ایف جی: چیپٹر 2‘، ’آر آر آر‘، اور ’پشپا‘۔ماہرین کا خیال ہے کہ ممبئی کے سٹوڈیوز میں بننے والی ہندی فلموں میں شاندار سیٹس، دلکش گانوں اور ساؤتھ کی بلاک بسٹروں کی طرح سلوموشن سیکونسز کی کمی ہوتی ہے۔ملک میں ساؤتھ کی فلموں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پر فلمی نقاد سچریتا تیاگی کا کہنا ہے کہ ’اگر میں اب کسی سنیما ہال میں جاتی ہوں تو مجھے ایک مختلف قسم کا تجربہ چاہیے، جیسا کہ میں ایک دلچسپ سفر پر ہوں۔‘وبا کے دوران گھر بیٹھے لوگوں نے سٹریمنگ پلیٹ فارمز پر بہت سی غیر ہندی، جنوبی ہندوستانی فلمیں تلاش کیں، کیونکہ جب آپ گھر پر ہوتے ہیں تو ایک وقت کے بعد آپ ہندی فلموں سے بور ہو جاتے ہیں۔لیکن تجزیہ کار اس رجحان کو قابل اعتماد نہیں کہتے۔ جیسا کہ ایمکے گلوبل نے رپورٹ کیا، ’علاقائی فلموں (جنوبی اور غیر جنوبی) کا عام طور پر اپنی روایتی مارکیٹ سے باہر بہت کم اثر ہوتا ہے۔‘اس سال کے دوسری شش ماہی میں کوئی بڑی علاقائی فلمیں ریلیز نہ ہونے کی وجہ سے ہندی فلمیں باکس آفس کی صحت کو برقرار رکھنے کی ذمہ دار ہوں گی۔ بالی وڈ اب دوسرے ہاف میں ہونے والے نقصان کو پورا کرنے کے لیے ’لال سنگھ چڈھا‘، ’فاریسٹ گم‘ کا ہندی ریمیک اور رنبیر کپور کے ایکشن ڈرامے ’شمشیرا‘ جیسی بہت زیادہ انتظار کی جانے والی فلموں کی ریلیز کے انتظار میں ہے۔سال کی پہلی ششماہی کے مقابلے دوسرے نصف میں مزید فلمیں ریلیز ہونے کے ساتھ، باکس آفس کے کلیکشن میں کووڈ سے پہلے کی سطح تک بڑھنے کی امید ہے۔کوئی بھی یہ نہیں لکھنا چاہتا کہ بڑی سکرین پر فلمیں دیکھنے کے دن ختم ہو چکے ہیں، لیکن تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ لوگوں میں سٹریمنگ پلیٹ فارمز کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور ناظرین کی بدلتی فطرت نے بلاشبہ کاروبار کو متاثر کیا ہے۔ایم کے گلوبل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہت سے ایسے معاملات ہوں گے جب ناظرین فلم دیکھنے کے لیے سنیما ہال جانے کے بجائے او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر فلم کی ریلیز کا انتظار کریں گے، خاص طور پر جب فلمیں اوسط درجے کی ہوں۔فلموں کی ڈائریکٹ ٹو سٹریمنگ ریلیز کی تعداد میں بھی اضافہ متوقع ہے۔ایمکے گلوبل کے مطابق، انڈیا میں او ٹی ٹی پلیٹ فارمز نے اصل مواد کے لیے 50 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، جو کہ بڑھتے ہوئے سبسکرائبر بیس سے زیادہ ہے۔لیکن تبدیلی کا یہ انداز وہی رہے گا، کیونکہ سبسکرائبرز کی تعداد مواد کی بجائے فیس پر زیادہ منحصر ہے۔تاہم، یہ اس صنعت کے لیے اچھی خبر ہے، کیونکہ فلم سازوں پر شائقین کو سنیما ہال تک کھینچنے کا دباؤ سٹریمنگ سے ہونے والے منافع میں اضافے کے مقابلے میں بڑھے گا۔تیاگی کہتے ہیں، ’جب آپ فی فلم 1600-2400 روپے خرچ کر رہے ہوتے ہیں (ٹکٹ کی مد میں) تو آپ کی توقعات بھی بڑھ جاتی ہیں، کیونکہ اتنی ہی رقم خرچ کر کے آپ ایک سال کے لیے کسی بھی سٹریمنگ سروس کو سبسکرائب کر سکتے ہیں۔ تو لوگ اب اس کا انتخاب کیوں نہیں کریں گے؟ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ بہت زیادہ ہو رہا ہے۔‘

 

Related Articles