طالبان کا سابق افغان حکام کو کرپشن الزامات پر جواب دہ نہ ٹھہرانے کا اعلان
کابل،جولائی۔افغانستان میں طالبان حکومت نے کہا ہے کہ وہ سابق حکومت کے اْن افغان حکام کو جواب دہ نہیں ٹھہرائیں گے جن پر کرپشن کے الزامات ہیں اور انہوں نے سابق حکومت کو کمزور کرنے میں معاونت کی۔افغان طالبان کے چیف ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے وائس آف امریکہ پشتو سروس کو بتایا کہ ایسے افراد جنہوں نے امریکہ کی آشیرباد سے چلنے والے نظام سے استفادہ کیا اور اثاثے بنائے، اْنہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ البتہ اْن کا کہنا تھا کہ ایسے افغان عہدے دار جنہوں نے 20 برسوں کے دوران نجی املاک یا عوامی اثاثوں پر قبضہ کیا اْن کے خلاف کرپشن کے مقدمات قائم کیے جائیں گے۔ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ جن افراد نے سابق افغان حکومت کے دور میں کرپشن سے پیسہ کمایا، اْن کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی اور وہ اپنی دولت اپنے پاس رکھ سکیں گے۔بیرونی امداد پر انحصار کرنے والی سابق افغان جمہوری حکومت کے دور میں بھی افغانستان دنیا کے پانچ بڑے بدعنوان ملکوں میں سے ایک تھا۔امریکہ کے اسپیشل انسپکٹر جنرل برائے افغان تعمیرِ نو (سگار) کے ترجمان فلپ لاویلے نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بدعنوانی نے افغانستان کی تعمیرِ نو اور اس کے اداروں کی مضبوطی کی کاوشوں کو نقصان پہنچایا۔سن 2002 سے لے کر 2021 تک امریکہ نے افغانستان میں ترقیاتی کاموں کی مد میں 145 ارب ڈالرز خرچ کیے جب کہ عالمی امدادی اداروں اور یورپی یونین نے بھی اس ضمن میں اربوں ڈالرز خرچ کیے۔افغان اْمور کے ماہر واحد فقیری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کرپشن سابق افغان حکومت کا شیرازہ بکھرنے کی سب سے بڑی وجہ تھی۔اْن کا کہنا تھا کہ کرپشن نے نہ صرف افغانستان میں جمہوریت کوکمزور کیا بلکہ اس نے طالبان کے پروپیگنڈے کو تقویت کی دی جس سے لامحالہ پورے جمہوری نظام کو نقصان پہنچا۔افغان تجزیہ کار محمد حلیم فدائی نے وی او اے کو بتایا کہ کرپشن اسلامی جمہوریہ افغانستان (ملک کا 2004 سے 2021 تک نام) کے خاتمے کی صرف ایک وجہ نہیں تھی۔اْن کے بقول امریکی عہدے داروں کی غلط پالیسیاں بھی اس کی ایک وجہ تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ طالبان بھی اپنے زیرِ اثر علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں پر ٹیکس عائد کر کے رقوم ہتھیاتے رہے تھے۔فلپ لاویلے بھی کہتے ہیں کہ افغانستان میں امریکی فنڈنگ میں کئی خامیاں تھیں جس نے کرپشن کی راہ ہموار کی۔گزشتہ برس اقتدار پر قبضے کا تقریباً ایک برس مکمل ہونے کے باوجود طالبان نے انسدادِ بدعنوانی کے لیے کوئی مؤثر حکمت عملی طے نہیں کی جس پر بعض حلقوں کی جانب سے اْنہیں تنقید کا بھی سامنا ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ طالبان حکام نے ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔خیال رہے کہ طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد عام معافی کا اعلان کیا تھا جس کے بعد طالبان حکومت کے ڈر سے بیرون ملک جانے والے بعض سابق افغان عہدے دار وطن واپس بھی لوٹے تھے۔