افغانستان کے بہترمستقبل کے لیے لڑکیوں کی اسکولوں میں فوری واپسی ہونی چاہیے: حامدکرزئی

کابل/دبئی،جولائی ۔ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ افغان لڑکیوں کو فوری طور پراسکولوں میں واپس جانا چاہیے۔انھوں نے العربیہ سے انٹرویو میں اس بات پر زور دیا ہے کہ جنگ زدہ ملک کو’’آگے بڑھنے‘‘اور باقی دنیا پر انحصار کم کرنے کے لیے تعلیم کی اشد ضرورت ہے۔کرزئی نے کہا کہ اس وقت سب سے اہم مسئلہ جماعت ششم سے بارھویں تک افغان لڑکیوں کی اسکولوں میں واپسی ہے۔افغان عوام موجودہ حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تعلیم کے ساتھ آگے بڑھے تاکہ افغانستان دنیا کا محتاج بننے کے بجائے ایسا ملک بنے جو اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے اور اس کیعوام کا بہترمستقبل کے لیے ملک سے انخلا کو روکنا ہوگا‘‘۔2002ء سے 2014 تک ملک کے صدر رہنے والے حامدکرزئی نے کہا کہ جب تک طالبان کی عبوری حکومت افغان عوام کی منظوری حاصل کرتی ہے،اقتدارمیں حصہ داری کا ماڈل ’’ضروری‘‘ نہیں ہے۔اس کے بجائے فی الوقت ہمیں یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ افغانستان اس کے تمام عوام کا ہے،اس کی حکومت اپنے تمام عوام کی نمائندگی کر رہی ہے اور وہ اس سمت میں بڑھ رہی ہے جہاں عوام کی امنگیں پوری ہو رہی ہیں۔انھوں نے کہاکہ طالبان کے لیے ملک کے عوام کی منظوری حاصل کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ لڑکیوں کی اسکول واپسی کو یقینی بنایا جائے۔حکومت کوایسی پالیسیاں اختیارکرنے کی ضرورت ہے جوعوام کے درمیان اتحاد کے احساس کو یقینی بنانے کے لیے ’’ترقی، خود کفالت اور معاشی فلاح و بہبود کی سمت‘‘میں ہوں۔انھوں نے مزید کہا کہ افغان عوام کے مفاد میں ہے کہ وہ اپنی خواتین کو تعلیم دلائیں۔ پوری مسلم دنیا لڑکیوں کو تعلیم دے رہی ہے۔ اسلام لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیتا ہے۔ وہ تعلیم اور سیکھنے پر بے حد زور دیتا ہے اور افغانستان اس سے مستثنا نہیں ہوسکتا۔اس لیے اس کا تو کوئی جواز نہیں کہ لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت ہی نہ دی جائے۔افغانستان کے سابق صدر نے یہ گفتگو ملک میں ہفتے کے روز ختم ہونے والے تین روزہ اجلاس کے بعد کی ہے۔اس اجلاس میں لڑکیوں کی تعلیم سمیت ملک کودرپیش چند اہم ترین مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔خبروں کے مطابق افغان خواتین کارکنوں نے اتوار کے روز کہا کہ وہ ہزاروں مرد افغان ناقدین کی جانب سے حکومت کی توثیق کے اعلان کے باوجود اب بھی طالبان کو ناجائز حکمران سمجھتی ہیں۔گذشتہ ہفتے انھوں نے مطالبہ کیاتھا کہ تین روزہ اجلاس میں خواتین کو بھی نمائندگی دی جائے گی لیکن انھیں بتایا گیا کہ ان کے بیٹے اور شوہر ہی ان کی نمائندگی کریں گے۔ اس اجلاس میں 3500 سے زیادہ مردوں نے شرکت کی۔حامد کرزئی نے انٹرویو میں مزید کہا کہ افغان خواتین ایک’’طویل عرصے سے‘‘ملک میں برقع پہن رہی ہیں۔وہ کئی شکلوں میں حجاب کی مکمل پاسداری کررہی ہیں۔بعض برقع پہنتی ہیں، کچھ اپنے سروں پرایک بڑا اسکارف اوڑھتی ہیں۔دوسری خواتین کچھ اورانداز میں سرپوش لیتی ہیں۔تاہم، ضرورت اس بات کی ہے کہ حجاب پر اس قدر بحث نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ وہ چیز ہے جو معاشرہ بہرحال کر رہا ہے۔ ہم جس کے بارے میں پوچھ رہے ہیں اور ملک جس بارے میں پوچھ رہا ہے،وہ خواتین کی کام پر واپسی ہے۔انھوں نے العربیہ کو بتایا کہ معاشرے کے نصف حصے کے طور پریہ انتہائی اہم ہے کہ ہماری خواتین کام پر واپس آئیں۔مجھے افغانستان کی فلاح و بہبود پرزوردینا چاہیے، جو بھی حکومت ملک کو اچھی طرح دیکھنا چاہتی ہے اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ بہترمستقبل کے لیے خواتین کے اس معاشرے کے مردوں کے شانہ بشانہ، کندھے سے کندھا ملا کر کام کیے بغیرترقی کا عمل مکمل نہیں ہو سکتا۔

 

Related Articles