سری لنکا میں ایندھن کا بحران

یہاں پیٹرول ڈلوانے کے لیے کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا ہے

کولمبو،جولائی۔پیٹرول کے حصول کے لیے لگی قطار میں سب سے آگے لگنا عموماً سب کی خواہش ہوتی ہے لیکن جیون سداسیوم کو کچھ علم نہیں تھا کہ انھیں اس قطار میں کتنی دیر رہنا پڑ سکتا ہے۔سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو کے ایک پیٹرول پمپ کے باہر صبر سے انتظار کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میں پہلے ہی دو دن سے اس قطار میں کھڑا ہوں۔ بطور ایک ٹیکسی ڈرائیور کے تیل ان کے لیے زندگی کی مانند ہے لیکن سری لنکا کے پاس ایندھن کی رسد نہیں آ رہی ہے۔ جیون سداسیوم نے ہمیں گاڑی کے ڈیش بورڈ پر فیول ٹینک دکھائی جہاں میٹر کی سوئی خالی ٹینک کا اشارہ دے رہی تھی۔انھوں نے بتایا کہ میں اس کار میں ہی سو رہا ہوں، کبھی مجھے گاڑی قطار میں ہی چھوڑ کر کھانا لینے جانا پڑتا ہے، میں پھر واپس آ کر انتطار کرتا ہوں، میں کئی دنوں سے نہایا نہیں ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس انتظار کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ مجھے اپنے اہل خانہ کی دیکھ بھال کرنی ہے، اپنی بیوی اور دو بچوں کا خیال رکھنا ہے، صرف اگر مجھے پیٹرول مل جائے تو میں اپنی ٹیکسی چلانا اور روزگار کمانا شروع کر دوں۔ کم از کم دو ہفتوں تک ایندھن کی کوئی بین الاقوامی کھیپ نہ آنے کے بعد، سری لنکا کے دوسرے حصوں سے دارالحکومت کولمبو کو ایندھن سپلائی کیا جا رہا ہے، جہاں ابھی بھی پیٹرول کے کچھ ذخائر موجود ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر سری لنکا میں ایندھن کی شیدید قلت ہے۔جیون پرامید ہیں کہ پیٹرول کا ٹینکر جلد سپلائی لے کر آ جائے گا۔ جب وہ پیٹرول پمپ کے طرف انتظار بھر نظروں سے دیکھ رہے ہیں اس دوران سری لنکا کی فوج کے ارکان خالی پمپ کی حفاظت پر کرتے ہوئے آگے پیچھے ٹہل رہے ہیں۔جیون نے پرامید انداز میں کہا کہ انھوں نے مجھے بتایا ہے کہ انھیں توقع ہے کہ ایک ٹینکر آج رات پیٹرول لے کر یہاں پہنچا رہا ہے۔ وہ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’مجھے یہیں انتظار کرنا ہے چاہیے اس میں ایک ہفتہ لگ جائے، میں کہیں اور جا کر قطار میں نہیں لگ سکتا، یہ ممکن نہیں ہے۔‘جیون یہاں اکیلے نہیں ہیں بلکہ پیٹرول کے حصول کے لیے یہاں لگی سانپ کی طرح بل کھاتی قطار ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ تقریباً دو کلومیٹر طویل ہے جو مرکزی شاہراہ سے ہوتی ہوئی قریبی گلیوں تک جا پہنچی ہے۔یہ ایک بڑا عجیب منظر ہے، چار ایک ساتھ لگیں قطاریں، ایک گاڑیوں کے لیے، ایک بسوں اور ٹرکوں کے لیے اور دوسری دو موٹر سائیکلوں اور ٹک ٹک (رکشا) کے لیے ہیں۔ یہ انتظار کی دو دھاری تلوار ہے، پیٹرول جب بھی یہاں پہنچے اور اس سے پہلے کہ کوئی یہاں سے اپنی سواری کے لیے ایندھن حاصل کر سکے انھیں ایک ٹوکن لینے کی ضرورت ہے۔پیٹرول کی قطاروں میں انتظار کرتے جن بھی افراد سے ہم نے بات کی ہے، ان کا یہ کہنا ہے کہ بیشتر پیٹرول پمپ ایک وقت میں صرف ڈیڑھ سو ٹوکن ہی جاری کر رہے ہیں۔اس پیٹرول پمپ کے باہر لگی طویل قطار کے آخر میں ہمیں جیانتھا اتھوکورالا ملے جو قریبی گاؤں سے سفر کر کے اور تقریباً 12 لیٹر پیٹرول خرچ کر کے یہاں اس امید پر پہنچے ہیں تاکہ انھیں مزید پیٹرول مل سکے۔ ان کے پاس جیون کی طرح پیٹرول لینے کے لیے ٹوکن نہیں ہے اور ان کے ایک اندازے کے مطابق وہ قطار میں 300ویں نمبر پر کھڑے ہیں۔انھوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ آج مجھے ٹوکن ملے گا، ہم گیس اور پیٹرول کے بغیر نہیں رہ سکتے، ہم انتہائی مشکل میں ہیں۔ وہ ایک کار سیلز مین ہیں جنھیں پیٹرول کے انتظار میں اب مجبوراً اپنی کار میں ہی سونا پڑتا ہے۔ جبکہ کچھ پیٹرول پمپ صرف ضروری سروسز جیسا کہ ہیلتھ کیئر، خوراک سپلائی کرنے والے ادارے اور پبلک ٹرانسپورٹ کو ہی صرف پیٹرول دے رہے ہیں۔ جبکہ کچھ دیگر پیٹرول پمپ حکومت کی راشن سکیم کے تحت عام عوام کو بھی کچھ پیٹرول ڈال کر دے رہے ہیں۔اتھوکورالا کہتے ہیں کہ گاڑیوں کے لیے تیل ڈلوانے کی مختص رقم دس ہزار سری لنکن روپے سے بمشکل آدھی ٹینکی ہی پیٹرول بھرتا ہے۔سری لنکا کی حکومت پر تیل کے نئے ذرائع تلاش کرنے کے دباؤ کے باعث اب حکومت نے روس سے مدد کے لیے رابطہ کیا ہے۔ سستے تیل کی خریداری پر بات چیت کے لیے ہفتے کے آخر میں ایک وفد ماسکو پہنچنے والا ہے، اور صدر گوتابایا راجا پاکسے نے اس مسئلے پر بات کرنے کے لیے ولادیمیر پوتن کو خط لکھا ہے۔ایک پیٹرول پمپ کے پاس سے گزرتے ہوئے ہمم جگناتھن سے ملے جنھوں نے سفر کے لیے دوسری ذرائع استعمال کرنا شروع کر دیے ہیں۔اپنے چہرے پر ایک بڑی سے مسکراہٹ لیے انھوں نے ہمیں اپنی نئی سائیکل دکھائی جو انھوں نے حال ہی میں خریدی ہے اور اس پر اب بھی پلاسٹک کے لفافے چڑھے ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ اب وہ کہیں آنے جانے کے لیے سائیکل چلاتے ہیں اور اس کے عادی بن رہے ہیں۔جگناتھن بھی بطور ڈرائیور کام کرتے تھے لیکن اب ملک میں پیٹرول اور ڈیزل نہ ہونے کے باعث انھوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور اپنی بچت کے کچھ پیسوں سے انھوں نے سائیکل خرید لی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے سائیکل معمول سے تین گنا زیادہ قیمت پر خریدی ہے یعنی ستر ہزار سری لنکن روپے میں۔جیسے ہی جگناتھن اپنی نئی سائیکل چلاتے چلے گئے، ہماری ملاقات دوسرے لوگوں سے ہوئی جو دوسرے طریقوں سے بھی اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔ کھڑے ہوئے ٹک ٹک کی قطار کے پیچھے، وہاں ایک چھوٹی سی انسانوں کی قطار بھی تھی جہاں تقریباً چھ افراد لاٹری ٹکٹ خریدنے کا انتظار کر رہے تھے۔یہ قطار تیزی سے چل رہی تھی کہ سری جو ایک مزدور ہیں اس لاٹری کے بچے ہوئے تمام 26 ٹکٹ خریدنے میں کامیاب ہو گئے۔ سری کہتے ہیں کہ انھوں نے لاٹری کے یہ ٹکٹ اپنے خاندان کے لیے خریدے ہیں۔ میرا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہے، یہ بہت مشکل وقت ہے لیکن ہمیں صبر سے کام لینا ہے۔‘جبکہ کچھ افراد اپنے ٹک ٹک میں ہی سو رہے تھے اور کچھ دوسرے لوگ وقت گزاری کے لیے ایک گروہ کی صورت میں بیٹھے باتیں کر رہ تھے۔سری اپنے ہاتھ میں لاٹری ٹکٹوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہتے ہیں شاید کسی دن میں لاٹری جیت جاؤں۔‘ انھوں نے یہ بات یہاں موجود بہت سے افراد سے زیادہ امید کے ساتھ کہی۔اس خبر کے لیے اضافی رپورٹنگ انڈریو کلارنس نے کی ہے۔

Related Articles