یوکرین جنگ: ہر کسی نے کوئی نہ کوئی اپنا کھو دیا ہے
کیئو،جون۔روس کے زیر قبضہ یوکرینی شہر ماریوپول میں پھیلے خوف و ہراس کا درست اندازہ لگا پانا مشکل ہے۔جو باتیں اور واقعات گزر چکے ہیں ان کا اندازہ لگانا اور بھی مشکل ہے۔51 سالہ یولیا زولوتیرووا اپنی پرنم آنکھوں کے ساتھ بتاتی ہیں: ہر طرف لاشیں پڑی تھیں۔ ہر گھر کے قریب لوگ پڑے تھے۔ انھیں کوئی نہیں لے گیا۔ اب وہ دارالحکومت کیئو کی نسبتاً محفوظ فضا میں سانس لے رہی ہیں۔ یہاں انھوں نے اپنے آبائی شہر میں زندگی کا دردناک حال بیان کیا جہاں اب یہ خدشہ ہے کہ ہیضے کی ایک بڑی وبا پھیل سکتی ہے۔یولیا صرف دو ہفتے قبل ہی ماریوپول سے فرار ہونے میں کامیاب ہو سکی ہیں۔وہ کہتی ہیں: سب کے لیے سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ بس ناامیدی، خوف، درد ہے۔ اتنا کہتے ہی ان کی آنکھوں سے اشک بہہ کر چہرے پر آنے لگتے ہیں۔ تقریباً ہر خاندان نے اپنے کسی نہ کسی قریبی کو کھویا ہے۔ یہاں یہ سمجھنا بہت آسان ہے جس کا یوکرین کے حکام اور بین الاقوامی انسانی ایجنسیاں خدشہ ظاہر کر رہی ہیں۔ دونوں کا خیال ہے کہ ماریوپول میں بیماری کے تیزی سے پھیلاؤ کے لیے حالات بہت سازگار ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک کسی نے کوڑا نہیں اٹھایا۔ یولیا بتاتی ہیں کہ ان کے شہر میں اب بھی تقریبا ایک لاکھ لوگ موجود ہیں لیکن ان میں سے بہتوں کے لیے پینے کا صاف پانی تلاش کرنا ناممکن ہے۔انھوں نے کہا: ہم نے بوائلر سے پانی نکال نکال کر پیا۔ ہیٹنگ سسٹم سے پانی نکال کر پیا۔ بعد میں، ہمارے مرد تباہ شدہ سوئمنگ پول سے کلورین والا پانی لے کر آئے۔ ہمارے پاس بس اتنا ہی تھا۔ روسی قبضے کے تحت زندگی یا اس کے بجائے وجود کی حقیقت سخت مشکلات کا شکار ہے جبکہ ماریوپول میں پروپیگنڈا اپنے عروج پر ہے۔اسے دھماکوں سے تسخیر کیا گیا ہے اور یہ اب اپنے روسی قبضے کا جشن منانے پر مجبور ہے۔محکومی کا سب سے علامتی لمحہ گذشتہ ہفتے کے آخر میں اس وقت آیا جب قابضین نے شہر کے داخلی راستے پر سوویت دور کے کنکریٹ پر استقبالیہ کا نشان پینٹ کر دیا۔یوکرین کے پرچم کے نیلے اور زرد رنگ کو چھپاتے ہوئے روسی پرچم کے تازہ رنگ ابھر آئے۔ایک جانب ماسکو تاریخ پر نیا رنگ چڑھانے کی کوشش کر رہا ہے تو دوسری جانب وہ وہاں کے باشندوں کے لیے مصائب بھرا مستقبل پیش کر رہا ہے جنھیں وہ آزاد کرانے کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے۔ایک نئے نصب کیے جانے والے دیو قامت بل بورڈ پر یہ لکھا گیا ہے کہ روس یہاں ہمیشہ کے لیے ہے۔ اگر یولیا زولوتیرووا اس جہنم سے بچنے میں کامیاب رہیں تو اس کا سہرا ان کی بیٹی اناستاسیہ کے سر جاتا ہے جو دور رہ کر بھی انھیں فرار کے ممکنہ راستوں کے بارے میں معلومات فراہم کرتی رہیں۔26 سالہ اناستاسیہ یوکرین کی قومی ریلوے میں کام کرنے کے لیے ایک سال قبل ہی دارالحکومت کیئو منتقل ہوئی تھیں۔جنگ کے بعد سے، وہ اپنے خاندان کو دوبارہ بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔لیکن یہ اب ناممکن ہوگا۔کیونکہ روسیوں نے نہ صرف ان کے خاندانی گھر کو تباہ کر دیا ہے بلکہ ان کی دادی ویلنٹینا کو بھی مار ڈالا ہے۔اناستاسیہ غصے اور اداسی کے ساتھ ہمیں بتاتی ہیں کہ در حقیقت انھوں نے تین نسلوں کو تباہ کر دیا ہے۔ اور یہ سب اس لیے کیا، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم یوکرینیوں کا وجود نہیں ہونا چاہیے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ فروری میں حملے کے بعد سے وہ کتنے لوگوں کو جانتی ہیں جو مارے گئے ہیں۔وہ کہتی ہیں: 20 لوگوں کو میں ذاتی طور پر جانتی ہوں۔ لیکن ان کے لیے اپنی پیاری دادی کی موت کو برداشت کرنا سب سے مشکل ہے۔80 سالہ ویلنٹینا پولیشوک کی وفات 21 مارچ کو ہوا۔ تقریباً تین ماہ گزرنے کے باوجود ان کی لاش برآمد نہیں ہو سکی ہے۔اور اب شاید کبھی ہو بھی نہ سکے۔ویلنٹینا کی بیٹی یولیا یعنی اناستاسیا کی ماں اس خوفناک لمحے کو یاد کرتی ہیں جب روسیوں نے آدھی رات کو خاندان کے اپارٹمنٹ والے بلاک کو نشانہ بنایا تھا۔ میں نے سوچا کہ زلزلہ آیا ہے کیونکہ سب کچھ کانپ رہا تھا۔ فرش، دیواریں، سب کچھ گر گئیں۔ میں نے سوچا کہ ہم سب بس اب مرنے والے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ میزائل نے اوپر کی تین منزلوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا اور پھر اس کے بعد آگ باقی عمارت میں پھیل گئی۔ وہ انتہائی خوفناک منظر تھا۔ ہم نیچے تہہ خانے میں گئے لیکن وہ بری طرح سے جل رہا تھا اور وہاں بہت تیز دھواں بھرا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ جلد ہی سانس لینا محال ہو گیا۔ میں نے اپنی ماں سے کہا: ماں، چلو پانچ منٹ کے لیے سانس لینے چلتے ہیں۔ آؤ تہہ خانے سے باہر نکلتے ہیں۔ انھوں نے انکار کر دیا کیونکہ وہ بہت تھکی ہوئی تھیں۔ وہ 80 سال کی تھی اور یہ ان کے لیے بہت مشکل تھا۔‘یولیا نے اپنا فون اور خاندان کے شناختی دستاویزات اپنی ماں کے پاس چھوڑے اور انھیں بتایا کہ وہ مدد کی تلاش میں باہر جا رہی ہیں۔ جیسے ہی میں باہر آئی تہہ خانہ دھنس گیا۔ انھیں بچانے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ یہ جہنم کی طرح تھا۔ یہاں تک کہ تہہ خانے میں بچوں سمیت بلاک کے 11 رہائشی ہلاک ہو گئے۔اب ایک دوسرے شہر کے ایک اور تہہ خانے میں ماریوپول کے زندہ بچ جانے والے ان کے یہاں ہونے والی اموات اور ان پر آنے والی تباہی سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔کیئو کے مرکز میں ہم مرد اور خواتین کو ایک دائرے میں کھڑے ایک دوسرے کو گیند بڑھاتے اور گلے ملتے ہوئے دیکھتے ہیں۔یہ ایک ایسی کمیونٹی کے لیے گروپ تھراپی ہے جو نہ صرف بے گھر ہے، بلکہ صدمے سے بھی دوچار ہے۔آج کا سیشن ان لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے یہ انکشاف کیا ہے کہ وہ خاص طور پر اس بارے میں فکر مند ہیں کہ آخر کیسے زندگی چلے گی۔ماہر نفسیات اینا چاسوونیکووا نے بتایا کہ کل کے سیشن میں سوگ پر توجہ مرکوز کی گئی تھی کیونکہ تقریباً تمام 20 شرکاء نے پچھلے تین مہینوں میں اپنے پیاروں کو کھو دیا تھا۔انھوں نے بتایا کہ پہلے تو لوگ گھبراہٹ کے حملوں سے دو چار لوگ آتے ہیں۔ انھیں یاد ہوتا ہے کہ وہاں کیا ہوا تھا، وہ دھماکے اور قتل تھے۔ وہ تمام برائیاں دیکھتے ہیں جو روسی فیڈریشن یوکرین میں لایا ہے۔ وہ کیئو کی مصروف ترین خواتین میں سے ایک ہوں گی کیونکہ ذہنی صحت کی مدد کا مطالبہ بھی اتنا ہی زیادہ ہے۔انھوں نے کہا کہ یوکرین کے تقریباً ہر کسی کو کچھ نہ کچھ نفسیاتی مسئلہ درپیش ہے۔ کسی نے جنگ دیکھی، کوئی جنگ میں تھا، کسی نے اپنے خاندان کو کھو دیا۔ اینا جہاں کام کرتی ہے وہ مرکز صرف پندرہ دن پہلے قائم کیا گیا تھا۔اس مدت میں انھوں نے 5,000 سے زیادہ لوگوں کی مدد کی ہے، یہ سب حال ہی میں ماریوپول سے آئے ہیں۔ایک اور کمرے میں ہم 79 سالہ مائیکولا پولیشوک کو اپنی تفصیلات بتاتے اور اپنے پیارے ماریوپول میں اپنی زندگی کو ریکارڈ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں: ان کا پتا، ان کی ملازمت، ان کا خاندان۔لیکن ان کے کوائف کے ریکارڈ میں ایک لائن غائب ہوگی۔کہ وہ ویلنٹینا کے شوہر ہیں۔جو کہ 52 سال تک ان کی بیوی رہیں۔ مجھے افسوس ہے، میں بات نہیں کر سکتا کیونکہ آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ مائکولا اپنے ہاتھوں سے اپنا سر پکڑتے ہیں اور چہرہ ڈھانپ لیتے ہیں۔ان کے سامنے ان کی شادی کے دن کی تصویر ہے۔ یہ شادی سنہ 1970 میں ماریوپول میں ہوئی تھی۔یہ ان چند چیزوں میں سے ایک ہے جو ان کے خاندان کے پاس اب بھی ہے۔ان کا چہرہ باقی تمام رنگوں سے عاری ہے، کیونکہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کے حملے نے ان کے لیے جو نیا وجود بنایا ہے وہ اس کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ انھوں نے جو کچھ کیا ہے اسے کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔