جمعیۃ علماء ہند بھی سوسائٹی کا ایک حصہ،یوپی حکومت کے اعتراض پر سپریم کورٹ کا تبصرہ
اس طرح کے ظلم پر جمعیۃ علماء ہند خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتی: مولانا ارشد مدنی
نئی دہلی، جون ۔یوپی کے مختلف اضلاع میں ایک ہفتہ سے جاری غیر قانونی انہدامی کارروائی کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کی داخل کردہ عرضی پر آج سپریم کورٹ نے سماعت کرتے ہوئے یو پی حکومت کو حلف نامہ داخل کرنے کا حکم دیا اور سماعت اگلے منگل تک ملتوی کردی۔اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جمعیۃعلمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے خود آئین مخالف اقدامات کررہے ہیں۔ جمعیۃ علمائے ہند کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق جمعیۃ علماء کے وکلاء نے عدالت سے اسٹے کی گذارش کی تھی لیکن عدالت نے یہ کہا کہ انہیں امیدہے کہ اب یو پی حکومت کی جانب سے غیر قانونی طور پر بلڈوزرنہیں چلایا جائے گااور اگر کسی غیر قانونی عمارت کو منہدم ہی کرنا ہے تو قانونی کارروائی مکمل کیئے بغیر کسی طرح کی انہدامی کارروائی انجام نہ دی جائے۔ آج تقریباً آدھا گھنٹے تک بحث چلی جس کے دوران فریقین کی جانب سے گرما گرم بحث ہوئی۔دو رکنی تعطیلاتی بینچ کے جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وکرم ناتھ کے روبرو جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر وکلاء نتیا راما کرشنن اور سی یو سنگھ پیش ہوئے جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے گزشتہ کارروائی پر عدالت نے غیر قانونی بلڈوزر انہدامی کارروائی پر نوٹس جاری کیئے جانے کے بعد بھی یوپی میں غیر قانونی طریقے سے انہدامی کارروائی کی جارہی ہے جس پر روک لگانا ضروری ہے نیز ان افسران کے خلاف کارروائی کرنا بھی ضروری ہے جنہوں نے قانون کی دھجیاں اڑاکر مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا ہے۔سینئر وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ ایمرجنسی کے دوران اور آزادی سے پہلے بھی ایسی بربریت نہیں ہوئی تھی جیسی آج یو پی میں کی جارہے۔ یوپی ریاست کے اعلی افسران نے میڈیا میں کھلے عام بیان دیا کہ بلڈوز کا استعمال فساد کرنے کا بدلا ہے جسے ایک ایک ملزم سے لیا جائے گا۔عدالت کو مزید بتایا گیا کہ جاوید نامی ایک شخص کا مکان منہدم کیا گیا جواس کے نام پر تھا ہی نہیں بلکہ مکان اس کی اہلیہ کے نام پر تھا، اسی طرح دیگر مکانا ت کو بھی غیر قانونی طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔وکلاء نے عدالت کو مزید بتایا کہ کئی جگہوں پر ایک رات قبل نوٹس چسپاں کرکے دوسرے ہی دن سخت پولس بندوبست میں انہدامی کارروائی انجام دی گئی جس کی وجہ سے متاثرین عدالت سے رجوع بھی نہیں ہوسکے نیز ڈر و خوف کے اس ماحول میں متاثرین براہ راست عدالت سے رجوع ہونے سے قاصر ہیں۔یو پی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ ہریش سالوے اور سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشارمہتا نے جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن پر سخت اعتراض کیا اور کہا کہ آج عدالت میں متاثرین کی بجائے جمعیۃ علماء ہند آئی ہے جس کی پراپرٹی کو نقصان نہیں ہوا ہے جس پر بینچ نے انہیں کہا کہ لا قانونیت نہیں ہونا چاہئے، اس کو مدعا نہیں بنانا چاہئے کہ کون عدالت کے سامنے آیا ہے، جمعیۃ علماء بھی سوسائٹی کا ہی حصہ ہے۔عدالت نے مزید کہاکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جس کا گھر بلڈوز کیاجاتا ہے وہ ہمیشہ عدالت نہیں پہنچ پاتا۔جسٹس بوپنا نے سینئر ایڈوکیٹ ہریش سالوے سے مزید کہا کہ ایسے معاملات میں عدالت کامداخلت کرنا ضروری ہے اور اگر عدالت نے مداخلت نہیں کی تو یہ مناسب نہیں ہوگا۔انصاف ہوتے ہوئے دکھائی دینا چاہئے لہٰذا ابھی تک کی گئی انہدامی کارروائی پر اگلی سماعت پر عدالت میں حلف نامہ داخل کریں۔وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ قانون کے مطابق کسی بھی طرح کی انہدامی کارروائی شروع کیئے جانے سے قبل پندرہ دن کی نوٹس دینا ضروری ہے نیز اتر پردیش بلڈنگ ریگولیشن ایکٹ1958 /کی دفعہ 10/ کے مطابق انہدامی کارروائی سے قبل فریق کو اپنی صفائی پیش کرنے کا مناسب موقع دینا چاہئے اسی طرح اتر پردیش اربن پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ 1973 کی دفعہ 27 کے تحت کسی بھی طرح کی انہدامی کارروائی سے قبل 15/ دن کی نوٹس دینا ضروری ہے اسی کے ساتھ ساتھ اتھاریٹی کے فیصلہ کے خلاف اپیل کا بھی حق ہے اس کے باوجود بلڈوز چلایا جارہا ہے۔یو پی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے وکلاء نے بتایا کہ شو کاز نوٹس دینے کے بعد ہی انہدامی کاررائی انجام دی گئی ہے نیز حکومت کی طرف سے ایسی کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے جس پر اعتراض کیا جائے، یو پی حکومت اس تعلق سے حلف نامہ داخل کرنے کو تیار ہے۔صدرجمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے عرضی پر سپریم کورٹ کی فوری مداخلت اور عدالت کے ذریعہ اتر پردیش سرکار کو تین دن کے اندر حلف نامہ داخل کرنے کاخیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا یہ عبوری حکم خوش آئند ہے اور ہم یہ امید کرتے ہیں کہ حتمی فیصلہ بھی مظلومین کے حق میں ہوگا۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے یہاں آئین اور دستور ہے،قانون پر عمل کرنا سبھی کی بنیادی ذمہ داری ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے خود آئین مخالف اقدامات کررہے ہیں۔مولانا نے کہا کہ پر امن احتجاج عوام کا بنیادی حق ہے،حکومت کی طرف سے اس کی اجازت نہ دینا احتجاج کرنے والوں پر لاٹھی چارج کرنا، انہیں گرفتار کرلینا، پولس اسٹیشن میں جانوروں کی طرح مارنا پیٹنا،اور ان کے مکانوں کو مسمار کردینا کھلا ہوا جبر و استبداد ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ عوام کو ان کے جمہوری اور دستوری حق سے محروم کرنے کی سازش ہے۔مولانا مدنی نے مزید کہا کہ سالیسٹر جنرل تشار مہتا کا یہ کہنا کہ جمعیۃ علما ء ہند کو سپریم کورٹ آنے کا کیا حق پہنچتا ہے۔متاثرین کو خود آنا چاہیے۔تشار مہتا کی یہ بات سراسر غلط ہے کیوں کہ جمعیۃعلما ہند کا ہمیشہ سے مظلوموں کو انصاف دلانے اور انسانیت کی بنیاد پہ بلا تفریق مذہب و ملت خدمت کرنا اس کا مشن ہے۔ جمعیۃعلماء ہنداسی مشن کے تحت میدان میں آئی ہے۔جن علاقوں میں انہدامی کاروائی ہوئی ہے وہاں کے لوگ ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں۔جمعیۃ علماء ہند نے متاثرین اور انصاف پسند عوام کی درخواست پر ہی سپریم سے کورٹ سے رجوع ہوئی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ عدالت سیکولرزم کی حفاظت کے لئے مضبوط فیصلہ کرے گی تاکہ ملک امن وامان سے چلتا رہے اور مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہ ہو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ جمعیۃ علماء ہند کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں وہ یہ جان لیں کہ جمعیۃ علماء ہند نے ملک کی جنگ آزادی میں ہراول دستے کے طور پر کام کیا تھا اور ہمارے بزرگوں نے وطن کی آزادی کے لئے ہنس ہنس کر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔اس لئے جمعیۃ علماء ہند ملک کی آئین کو تباہ و برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتی اور نہ ہی اس طرح ظلم و جبر پر خاموش تماشائی بن کر رہ سکتی ہے۔