سابق ہائی سکول ٹیچر نے اپنی 30 ویں سالگرہ سے پہلے ایک ملین ڈالر کیسے کمائے؟

لندن،جون۔بہت سے لوگ چھوٹی عمر میں کروڑ پتی بننے کا خواب دیکھتے ہیں لیکن بہت کم ہی اسے پورا کر پاتے ہیں۔شیرون سیونگ ایک مقامی سکول میں شطرنج کی استاد تھیں اور اپنے فارغ وقت میں مارکیٹنگ سے بھی منسلک رہی تھیں۔ مگر انھوں نے خود کو بدلہ اور ’ڈیجیٹل نومیڈ‘ (ایسا شخص جو کسی بھی مقام سے کام کر سکتا ہے) کے طور پر اپنی شناخت بنائی اور اب پراپرٹی میں سرمایہ کاری کرتی ہیں۔اپنی 30 ویں سالگرہ سے پہلے انھوں نے مختلف کاموں کے ذریعے ایک ملین ڈالر (دس لاکھ) تک کما لیے تھے اور اس کی مدد سے انھوں نے ’پیسیو آمدن‘ (جہاں آپ روز کام نہیں کر رہے ہوتے مگر ان سے آپ کو مستقل آمدن حاصل ہوتی رہتی ہے) کا انتظام کر لیا، اس میں رقم بچا کر دوبارہ سرمایہ کاری کرنا بھی شامل ہے۔اب وہ دنیا کا سفر کرتی ہیں اور اپنے یوٹیوب چینل پر بلاگز اور معلوماتی ویڈیوز چلاتی ہیں تاکہ لوگوں کو سکھایا جا سکے کہ انھوں نے یہ سب کیسے کیا۔شیرون نے یہ سب کیسے کیا، کس چیز نے ان کی حوصلہ افزائی کی، اور بچپن سے ان کا پیسے کے بارے میں نقطہ نظر بچت کرنے اور مالی طور پر مستحکم ہونے میں کیسے مددگار رہا؟بی بی سی کے بزنس ڈیلی ریڈیو شو کے ساتھ اس انٹرویو میں شیرون سیونگ نے نوجوانوں کے لیے کروڑ پتی بننے کا فارمولا شئیر کیا۔مجھے نہیں لگتا کہ میرے میں کچھ خاص ہے۔ مجھے زندگی میں کئی موقعے ملے ہیں جو ہر کسی کو نہیں ملتے اور میں ان مواقع کے لیے شکرگزار ہوں۔کالج سے گریجویشن کے بعد میں نے 30 ہزار ڈالر سالانہ ملازمت کے ساتھ شروعات کی۔ 2016 میں میں نے کام چھوڑ دیا اور دو سال تک دنیا کا سفر کرتے ہوئے پیسیو آمدن کے ذرائع بنائے۔میں نے اس بات پر تحقیق شروع کی کہ آپ کس طرح پیسہ کمائیں اور آمدنی کے متعدد ذرائع بنا سکتے ہیں۔ میں مالی طور پر آزاد ہونا چاہتی تھی۔کیا خرچ کرنے اور بچانے کے لیے کسی خاص ذہنیت، اور بالغ رویے کی ضرورت ہوتی ہے؟میں نے بنیادی طور پر اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گھر پر گزارا جبکہ اسی دوران میرے دوست باہر مزے کر رہے اور بہت پیسہ خرچ کر رہے تھے۔ میں اتنا بچانا چاہتی تھی جتنا میں بچا سکتی تھی۔میں اچھی طرح حساب کتاب رکھتی تھی کہ میں کتنا خرچ کر رہی ہوں۔ میں سوچتی تھی کہ مجھے ایک خاص رقم کمانے میں کتنا وقت لگے گا۔ اگر میں نے کوئی چیز خریدی تو اس نے مجھے یہ سوچنے میں مدد کی کہ آیا مجھے اس کی ضرورت ہے یا نہیں اور کہیں میں فضول خرچی تو نہیں کر رہی۔صرف 20 سال کی عمر میں بچت کے بارے میں سوچنے کا یہ ایک بہت ہی سمجھدارانہ طریقہ ہے۔ آپ کے دوستوں نے اس کے بارے میں کیا کہا؟جس وقت سب مزے کر رہے تھے میں بچت کر رہی تھی اور یہ کوئی اچھی چیز نہیں سمجھی جاتی تھی۔ لیکن میرا ماننا تھا کہ بنا کسی ضرورت کے کسی دوسرے شہر جا کر رہنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔میں خوش قسمت تھی کہ میرے والدین واقعی چاہتے تھے کہ میں گھر میں رہوں۔کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ نے ان سالوں میں کچھ کھویا ہے؟زندگی مختصر ہے، اس لیے مجھے مادی چیزوں سے زیادہ تجربات میں دلچسپی ہے اور جب خرچ کرنے کی بات آتی ہے تو میں ہمیشہ اس بات کو یقینی بناتی ہوں کہ توازن برقرار رہے۔کیا آپ کو 20 کی دہائی میں کچھ نہ کرنے کا افسوس نہیں ہے؟مجھے ایسا لگتا ہے کہ دو سال دنیا کا سفر کرکے میں نے ان کی کثر پوری کر لی ہے۔ میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ والدین کے گھر رہ کر سخت محنت کرنے اور بچت کرنے میں گزارا۔ اس نے مجھے سفر کرنے اور دنیا کو دیکھنے کے قابل بنایا۔پیسہ بچانے کی جو مہارت آپ نے حاصل کی وہ کہاں سے آئی ہے؟یہ چیز میرے والدین نے مجھے سکھائی۔ وہ واقعی میں چاہتے تھے کہ میں مالی طور پر مستحکم ہو جاؤں۔میرے والدین کا تعلق چین اور ہانگ کانگ سے ہے اور میرے والد نے کالج کی فیس دینے کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کی مدد کے لیے متعدد ملازمتیں کیں۔ دونوں نے امریکہ آنے اور ہمیں بہتر واقع دینے کے لیے بہت قربانیاں دیں۔اور ان سے میں نے یہ سیکھا: یہ اہم نہیں کہ آپ کتنا کماتے ہیں، اہم یہ ہے کہ آپ کتنی بچت کرتے ہیں۔ شطرنج کی استاد کے طور پر میں نے کئی ملازمتیں کیں اور ان سے بچت کی۔یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے گریجویٹ ہونے کے بعدجب آپ نے نوکری شروع کی تو آپ کے والدین کو آپ پر بہت فخر ہو گا۔ پھر آپ نے ٹرپ پر جانے اور دوسری سرگرمیوں پر کام کرنے کے لیے اپنا سامان باندھا تو آپ کے والدین نے کیا کہا؟ کیا انھوں نے آپ کو روکنے کی کوشش کی؟وہ نہیں چاہتے تھے کہ میں جاؤں۔ وہ پریشان تھے کیونکہ میں اکیلی سفر کرنے جا رہی تھی۔ لیکن میں نے ایسا کیا کیونکہ میں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا چاہتی تھی۔ بعض اوقات دوسروں کی توقعات کے حساب سے اپنے فیصلے بدل دینا بہت آسان ہوتا ہے۔’ڈیجیٹل نومیڈ‘ کیا ہوتا ہے؟ ’پیسیو آمدن‘ کے ذرائع کیا ہیں اور دنیا کا سفر کرتے ہوئے آپ کس طرح پیسہ کما سکتے ہیں؟ڈیجیٹل نومیڈ ایسا شخص ہے جو کسی بھی مقام سے کام کر سکتا ہے۔ کووڈ کی وبا کی وجہ سے اب یہ عام سی بات ہے لیکن ماضی میں ایسا ممکن نہیں تھا۔پیسیو آمدن کے ذرائع بنانے میں کچھ وقت اور محنت لگ سکتی ہے، لیکن پھر اسے برقرار رکھنے کے لیے بہت کم وقت چاہیے ہوتا ہے۔شروعات میں میرا پیسیو آمدن کا پہلاذریعہ ایک آن لائن سٹور بنا۔ اس سٹور پر ڈیجیٹل پروڈکٹس جیسا کہ فوٹوشاپ، مائیکروسافٹ ورک ٹیمپلیٹس، سی ویز اور منی فوٹو شوٹس جیسی چیزیں بیچی جا رہی تھیں۔2015 میں میں ماہانہ 50-100 ڈالر کما رہی تھی۔ تب میں نے سوچا یہ کام چل جائے گا۔میری رائے میں یہ تھوڑی سی آمدن بھی اہم ہے، کیونکہ اگر کوئی چیز ہر ماہ فروخت ہو رہی ہے تو یہ کام بڑے پیمانے پر بھی چل سکتا ہے اور یہ آمدن 1000 ڈالر ماہانہ سے بھی زیادہ تک پہنچ سکتی ہے۔لہذا میں نے پہلے وہ کاروبار شروع کیا اور پھر اسے ایمیزون بزنس کے ساتھ ضم کر دیا۔ میں دوسرے گروپس کے ساتھ پیسیو آمدن کے ذرائع بنانے کے لیے ایسے ہی تجربے کرتی رہی۔کچھ عرصے کے بعد میں تقریباً 4000 سے 5000 ڈالر ماہانہ کما رہی تھی۔ اس کے بعد میں نے اس بارے میں بلاگز شروع کیے تاکہ لوگوں کو سکھایا جا سکے کہ یہ کام کیسے کرنا ہے۔کیا آپ دو سال تک چھٹیوں پر جانے کے دوران یہ کام جاری رکھنے کے قابل تھیں؟میں درحقیقیت یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ کیا میں یہ کام ہمیشہ کے لیے کر سکتی ہوں یا نہیں۔ یہ چھٹی نہیں تھی۔ میں پیسیو آمدن کے ذرائع بنانے اور بیرون ملک زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک نیا طرز زندگی بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔لیکن مجھے اس ٹرپ سے واپس آنا پڑا کیونکہ اس طرز زندگی کو جاری رکھنا مجھے زیادہ اطمینان نہیں دے رہا تھا۔ مجھے کچھ وقت گزار کر ایسے ہنر سیکھنے کی ضرورت تھی جن سے کچھ ایسا تخلیق کر سکوں جس کا اثر دیرپا ہو۔میرے خیال میں آپ کو یہ جاننے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کیا ضروری ہے اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ اپنی پسند کے کام کر رہے ہیں نہ کہ صرف پیسے کے پیچھے بھاگ رہے ہوں۔میں واپس آئی اور ذاتی طور پر مستحکم ہونے اور پیسیو آمدن کے ذرائع کیسے حاصل کیے جائیں، اسن چیزوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک برانڈ بنایا۔ ان پچھلے تین مہینوں میں میری اوسط ماہانہ آمدنی تقریباً 33000 امریکی ڈالر تھی۔اب چونکہ میں کافی کامیاب ہو گئی ہوں لہذا میں صرف ایسی چیزیں بنانے پر توجہ دیتی ہوں جن کا مجھے شوق ہے اور جن سے لوگوں کی زندگی میں فرق پڑتا ہے۔یہ سب کہنا آسان ہے کیونکہ آپ ایک ملین کما چکی ہیں۔۔۔۔جب میں اپنے ٹرپ سے واپس آئی تو میرے پاس دس لاکھ بھی نہیں تھے۔ لیکن میں نے ایک اچھی تنخواہ والی نوکری شروع کی اور ساتھ ساتھ پیسو آمدن کے ذرائع بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔جب گذشتہ دو سالوں کے دوران میرا برانڈ ختم ہونا شروع ہوا تو میں نے وہ ساری رقم رئیل سٹیٹ میں لگانا شروع کردی۔آپ نے ملین کب کمائے؟پچھلے سال کے شروع میں۔ ایک دن میں نے اپنی مجموعی آمدن کی سپریڈشیٹ کو دیکھا اور کہا، ’واہ، میں بلآخر اس مقام پر پہنچ گئی۔‘مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں نے اس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ جب میں نے کام شروع کیا اس وقت یہ ناممکن لگتا تھا مگر میرا کام تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ جب آمدن کے کئی ذرائع بن جائیں تو آپ کافی کچھ بچا کر پھر اسے دوبارہ سرمایہ کاری میں لگا سکتے ہیں۔اب کون سی چیز آپ کی حوصلہ افزائی کا سبب بنتی ہے کہ آپ کام جاری رکھے ہوئے ہیں؟ کیا آپ اگلے ملین کی تلاش میں ہیں؟ملین کمانا کبھی بھی میرا مقصد نہیں تھا۔ میں بس چاہتی تھی کہ مستقل آمدن کا ذریعہ ہو۔ ملین خود با خود بچ گئے۔میرا اگلا مقصد پیسوں کے بارے میں سوچنے کے بجائے وہ کرنا ہے جو مجھے پسند ہو۔ میں رئیل سٹیٹ میں اپنی حکمت عملی کو بہتر بنانے کی کوشش کروں گی۔ میں بلاگز اور کورسز جاری رکھوں گی جو اس حوالے سے دلچسپی رکھنے والوں کی مدد کر سکیں۔اگر آپ سکون کے بجائے مسلسل پیسہ کمانے پر توجہ دیتے رہیں تو جلدی تھک جاتے ہیں۔میں اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا، تجربات کرنا اور ایسی چیزیں کرنا چاہتی ہوں جو میرے کام میں رکاوٹ نہ بنیں۔میرے خیال میں وقت پیسے سے زیادہ اہم ہے۔ لہذا پیسیو آمدن کے جو ذرائع میں نے تخلیق کیے ہیں ان کا انحصار اس پر ہے کہ یہ آپ کو کتنی آزادی اور فری ٹائم دیتے ہیں۔اور اب آپ کے والدین کیا سوچتے ہیں؟مجھے لگتا ہے کہ انھیں مجھ پر بہت فخر ہے کیونکہ انھوں نے مجھے کچھ بڑا بنانے اور ایسا کرنے پر توجہ دینے کو کہا جس سے لوگوں کی زندگیوں میں فرق پڑے۔ اور میں یہی کر رہی ہوں۔

 

Related Articles