یورپی یونین کا روسی تیل کی درآمد پر پابندی کے نفاذ کا اعلان

برسلز،جون۔یورپی یونین کی بیرونی پالیسی کے سربراہ، جوزف بوریل نے کہا ہے کہ روسی تیل کی درآمد پر یورپی یونین کی پابندی کا مطلب یہ ہے کہ روس کو کم وسائل میسرآسکیں، مالی وسائل کم ہوں جس سے وہ اپنے جنگی جنون کو بڑھاوا نہ دے سکے۔بوریل نے منگل کے روز کہا ہیکہ یورپی یونین روس کو دیگر صارفین کو تیل فروخت کرنے سے روک نہیں سکتا، لیکن یورپی ممالک اس کے انتہائی اہم گاہک ہیں، اسی لییوہ مجبور ہوگا کہ قیمتیں کم کرے۔مصالحتی سمجھوتے کے جزْو کے طور پر یورپی یونین کے سربراہان نے پیر کی رات گئے اس بات سے اتفاق کیا کہ روسی تیل کی درآمدات میں دو تہائی کی کمی لائی جائے، تاکہ روس پر دباؤ بڑھایا جاسکے، ساتھ ہی یورپی یونین کے چند ملکوں کی معیشت پر پڑنے والے اثرات پر غور و خوض کیا گیا، جن کا تیل کی رسد کے لیے روس پرزیادہ انحصار ہے۔تجارت پر پابندی کے نتیجے میں روسی تیل کی بحری راستے رسد میں کمی واقع ہوگی ، جب کہ پائپ لائن کے ذریعے تیل کی درآمد کو استثنیٰ دیا گیا ہے۔زمین سے گھرے ہوئے ملک، ہنگری نے تیل کی درآمدات پر لگنے والی پابندیوں کی مخالفت کی دھمکی دے رکھی تھی، جس کے نتیجے میں یورپی یونین کے ارکان کیتمام فیصلے اتفاق رائے سے کیے جانے کی شرط متاثر ہورہی تھی۔ یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل نے کہا ہے کہ انھیں توقع ہے کہ بدھ کے دن یورپی یونین کے سفیر تجارت پر پابندی کی باضابطہ توثیق کریں گے ، جو وسیع تر پابندیوں کا ایک حصہ ہے۔یوکرین کے قائدین طویل عرصے سے یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ روسی تیل کی درآمد پر پابندی لگائی جائے، تاکہ روس کی آمدن میں کمی واقع ہو، اور جنگ کے درکار وسائل میں کمی آئے۔اس سے قبل پیر کو یورپی یونین سے خطاب کرتے ہوئے یوکرین کے صدر ولادومیر زیلنسکی نیاسی بات کا اعادہ کیا تھا۔جرمنی جیسے ملکوں نے وعدہ کیا تھا کہ روسی تیل کی درآمدات میں کمی لانے کے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ یورپی کمیشن کی صدر، ارسلا وان ڈر لین نے کہا ہے کہ اب سمجھوتے کے نتیجے میں اس سال کے آخر تک روسی تیل کی یورپی یونین کو درآمدات میں تقریباً 90 فی صد کی کمی واقع ہوگی۔تجارتی پابندیوں کے اس منصوبے میں اثاثے منجمد کرنا اور انفرادی سفر پر پابندی لگانا شامل ہے، ساتھ ہی روس کی سب سے بڑے بینک، سبربینک کو ‘سوفٹ’ کے عالمی مالی منتقلی کے نظام سے الگ کردیا جائے گا۔ یورپی یونین روس کے سرکاری تحویل میں کام کرنے والے تین نشریاتی اداروں پر پابندی عائد کرے گی کہ وہ یورپی یونین کیملکوں کو اپنے مواد کی ترسیل بند کردیں۔یورپی یونین کے قائدین نے یوکرین کو 9.7 ارب ڈالر فراہم کرنے کی تجویز پر بھی اتفاق کیا ، تاکہ ملک کی معیشت اور تعمیر نو کی کوششوں میں مدد دی جاسکے۔ادھر مشرقی یوکرین کے شہر، سیوریوڈونیسک کی سڑکوں پر گھمسان کی لڑائی جاری ہے، جہاں یوکرین کی افواج روسی فوج کے حملے سے بچنے کی کوشش کر رہی ہیں۔سیوریوڈونیسک کے میئر، اولیکسندر ستروک نے منگل کے روز کہا ہے کہ روسی فوج شہر کے نصف پر قابض ہوچکی ہے۔خبروں کے مطابق ستروک نے بتایا کہ اندازاً 13000 شہری اب بھی شہر میں ہیں، جہاں ایک لاکھ سے زائد لوگ آباد ہوا کرتے تھے۔پیر کی رات گئے قوم سے خطاب میں، زیلنسکی نے کہا کہ روسی جارحیت سے اب تک یوکرین میں ذرائع ابلاغ کے 32 کارکنان ہلاک ہوچکے ہیں۔ان میں پیر کو سیوریوڈونیسک کے شہر میں ہلاک ہونے والا فرانسیسی صحافی، فریڈرک اوماہاف بھی شامل ہے۔فرانس کے نشریاتی ادارے، بی ایف ایم ٹی وی نے بتایا ہے کہ علاقے سے متاثرین کے انخلا کی رپورٹنگ کے دوران، 32 برس کے صحافی کو اڑتا ہوا تیز دھار لوہے کا ٹکڑا لگا ، جس کی چوٹ سے وہ جانبر نہ ہوسکے۔فرانس کے صدر امانوئیل میکخواں نے اوماہاف کے لواحقین اور ان کے احباب کو ایک تعزیتی پیغام بھیجا ہے۔ انھوں نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں لکھا ہے کہ صحافیوں کی موت ایسے میں واقع ہو رہی ہے جب وہ دنیا کو لڑائی کی اصل حقیقت سے آگاہ کررہے ہیں۔یوکرین کی ایک عدالت نے منگل کے دن دو روسی فوجیوں کو ساڑھے گیارہ سال قید کی سزا سنائی ہے، جن پر خارکیف کے علاقے میں شہری عمارتوں کو گولہ باری کا نشانہ بنانے کا الزام ثابت ہوا۔ ان فوجیوں کو پکڑ لیا گیا تھا۔ گزشتہ ہفتے ان پر مقدمہ چلایا گیا جس میں انھوں نے اقبال جرم کیا۔

Related Articles