روبل: تمام تر پابندیوں کے باوجود روسی کرنسی امریکی ڈالر کا مقابلہ کیسے کر رہی ہے؟

ماسکو،جون۔تمام تر مشکل حالات کے باوجود امریکی ڈالر کے مقابلے میں روسی کرنسی روبل دنیا بھر میں بہترین کارکردگی دکھا رہی ہے۔ یہاں تک کے روبل نے برازیلی کرنسی ریال کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔روس کی یوکرین پر یلغار کے ردعمل میں مغربی ممالک کی جانب سے حالیہ برسوں کی سخت اور تیز ترین اقتصادی پابندیاں بھی روبل کی اٹھان کو نہیں روک سکیں۔روبل کی قیمت گر کر ڈالر کے مقابلے میں ایک سینٹ سے بھی کم رہ گئی تھی لیکن اس کمی کے صرف دو مہینے بعد روبل کی قدر میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔اس سال سات مارچ کو ڈالر کے مقابلے میں روبل کی قدر صرف 0.007 ڈالر رہ گئی تھی جو تاریخی کی کم ترین قدر تھی۔ یعنی ایک ڈالر میں 70 روبل آتے تھے۔تاہم تب سے اب تک روبل کی قدر میں تقریباً 15 فیصد اضافہ ہوا ہے اور اس وقت اس کی قدر 0.016 ڈالر ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب ایک ڈالر میں تقریباً 63 روبل خریدے جا سکتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی ایک اہم وجہ روس کی جانب سے ملک میں سخت کیپیٹل کنٹرول کا نفاذ ہے۔ اسی کنٹرول کی وجہ سے جب یوکرین میں جنگ کا آغاز ہوا تو کیش مشینوں پر لوگوں کی طویل قطاریں نظر آئیں۔روس میں شہریوں پر روبل بیچ کر غیرملکی کرنسی خریدنے پر پابندی لگانے کو امریکی وزیرِ خارجہ نے کرنسی کی ہیرا پھیری قرار دیا تھا۔اس اقدام کے ذریعے روس نے ایک ایسے وقت میں اپنے زرِ مبادلہ کے زخائر کو کم ہونے سے بچایا جب اسے ان کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔اس طرح روس نے ملک میں نہ صرف سرمایہ کاری اور سرمائے کی کمی کو پورا کیا بلکہ یوکرین پر حملے کے لیے مطلوبہ رقوم کا بھی بندوبست کیا۔روس کے اس اقدام کی کامیابی اس لحاظ سے بھی غیر متوقع تھی کہ ترکی اور ارجنٹینا میں یہ تجربہ بری طرح ناکام ہوا تھا۔یہ دونوں ممالک نہ صرف روس کی طرح کے نتائج حاصل نہیں کر سکے بلکہ ان ممالک کی کرنسیوں لیرا اور پیسو کو خطرناک نتائج بھگتنا پڑے۔دونوں کرنسیوں کی قدر میں ریکارڈ کمی ہوئی اور انھیں ابھی تک انھیں بحال کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔روس نے بین الاقوامی سزا کا سامنے کرتے ہی فوری طور پر ایسے اقدامات کرنے شروع کر دیے جن سے روس کی موجودہ نسل نا واقف تھی جس نے سوویت یونین کا زمانہ نہیں دیکھا تھا۔گلوبل مارکٹس کے ماہر بین لیڈلر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مغربی پابندیوں کے ردِعمل میں روس کے سینٹرل بینک کو بہت زیادہ شرحِ سود بڑھانے اور سرمائے کو کنٹرول پر مجبور کیا گیا۔‘انھوں نے بتایا کہ شرحِ سود کو دگنا کر کے 20 فیصد کر دیا گیا۔ روس کے ایکسپورٹرز کو اپنی غیر ملکی آمدنی کے 80 فیصد کو روبل میں بدلنے پر مجبور کیا گیا۔ اس کے علاوہ بیرونِ ملک رقوم بھجوانے کو بھی محدود کر دیا گیا۔روس کے خلاف مغربی ممالک کی پابندیوں میں سب سے موثر پابندی اس کے بیرونِ ملک اکاؤنٹس کو منجمد کرنا تھا۔جبکہ روس کی جانب سے یورپی یونین کے ممالک سے مطالبہ کہ وہ روسی گیس کی قیمت ڈالر یا یورو کے بجائے روبل میں ادا کریں اپنی کرنسی کے دفاع میں ایک اہم اقدام تھا۔یورپی ممالک روس کی گیس پر بہت انحصار کرتے ہیں اور متبادل ذرائع سے ایندھن حاصل کرنے منصوبوں کے باوجود روسی گیس سے نجات حاصل کرنے کے یورپی یونین کے پروجیکٹ کی تکمیل میں کئی برس لگیں گے۔روس کی سرکاری گیس کمپنی گیزپروم کے سب سے بڑے گاہکوں میں سے ایک جرمنی نے پہلے ہی روبل میں ادائیگیاں کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ کئی بڑے یورپی خریدار بھی یہ فیصلہ کر چکے ہیں۔سکوپ ریٹنگز سے منسلک سینیئر اینالسٹ لیوون کیمیراین کہتے ہیں کہ ‘روس کا فیصلہ یورپی یونین کے خلاف ایک دفاعی ردِعمل تھا جو اس نے یورپ کا گیس کا سب سے بڑا سپلائر ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کیا۔ یوکرین کی جنگ سے پہلے تک یورپ نے اپنی گیس کی ضروریات کا 40 فیصد روس سے حاصل کیا ہے۔‘اس کے علاوہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے نے بھی روس کی مدد کی۔ زیادہ مہنگے تیل کا مطلب ہے کہ روس سے خریداری کرنے والوں کو روس کو فی بیرل زیادہ ڈالر ادا کرنے ہوں گے جس کے لیے انھیں زیادہ روبل چاہیے ہوں گے۔تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سرمائے پر سخت کنٹرول، زیادہ شرحِ سود اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ، ان تینوں عناصر نے روسی معیشت پر پڑنے والے برے اثرات کی رفتار کو صرف آہستہ کیا ہے۔بلوم برگ اکنامکس کی جانب سے روس پر نظر رکھنے والے ماہر معیشت سکاٹ جانسن کا کہنا ہے ‘روبل کی قدر میں تیزی سے اضافہ روسی ایکسپورٹر اور کچھ مقامی صنعت کاروں کے لیے ایک مسئلہ ہے جس سے ملک پر اقتصادی پابندیوں سے پڑنے والے دباؤ میں اضافہ ہو گا۔جانسن نے کہا کہ روس سے باہر کی دنیا سے روبل کی قدر میں اضافہ دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ پابندیوں کا روس پر اثر نہیں ہو رہا لیکن یہ پوری طرح درست نہیں ہے۔’روبل کی قدر میں اضافے کی وجہ ایکسپورٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی کی روبل میں لازمی منتقلی ہے جو بیرونِ ملک سے رقوم کی آمد کو محدود کرتی ہے۔’انھوں نے کہا کہ روبل ادائیگیوں کے توازن کی صحیح تصویر تو پیش کرتا ہے لیکن معیشت کی مکمل ترجمانی نہیں کرتا جہاں صورتحال خراب ہے۔

 

Related Articles