ماس شوٹنگ کے سنگین واقعات پر مخالفین بھی سوچنے پر مجبور ہیں: بائیڈن
واشنگٹن۔امریکی صدر جو بائیڈن نے پیر کے روز کہا ہے کہ امریکہ میں بڑے پیمانے پر فائرنگ کے واقعات میں شدت آنے کی وجہ سے جو لوگ ہتھیاروں پر کنٹرول کے خلاف تھے وہ بھی اس معاملے کو حکمتِ عملی سے سلجھانے پر سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ٹیکساس کے پرائمری اسکول کے دورے کے بعد صدر جو بائیڈن نے کانگریس کو ہتھیاروں کے بہتر انتظام کے لیے نئے قانونی بل کو پاس کرنے پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ ان اقدامات میں ہتھیار خریدنے والوں کے ریکارڈ کی چھان بین اور دوسرے اقدامات بھی شامل ہیں۔یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے پرائمری اسکول میں فائرنگ کے واقعے میں 19 بچے اور دو اساتذہ ہلاک ہوگئے تھے۔ راب پرائمری اسکول کے باہر جہاں لوگوں نے مرنے والوں کی یاد میں پھول رکھے ہوئے تھے صدر بائیڈن اور خاتونِ اول جل بائیڈن نے رک کر کارڈ بورڈ پر مرنے والوں کی تصاویر اور ان کے نام پڑھے تھے۔وائس آف امریکہ کے کین بریڈیمئیر کے مطابق ماضی میں فائرنگ کے واقعات چاہے کتنے بھی سنگین ہوں، کانگریس کے ارکان اس کی مذمت کرتے ہیں لیکن اس سلسلے میں کوئی اقدامات نہیں اٹھاتے۔لیکن بائیڈن کے مطابق حالات اس قدر سنگین ہوچکے ہیں کہ ہر کوئی اس بارے میں بردباری سے غور کر رہا ہے۔ہتھیاروں کے لیے سخت انتظامات کے حامی اہم ڈیموکریٹ سینیٹرز کا کہنا ہے کہ ری پبلکن پارٹی کے سینیٹرز جو اس سے پہلے ہتھیاروں کی خرید پر لگنے والی پابندیوں کو نجی آزادیوں پر حملہ تصور کرتے تھے اب وہ اس کی متفقہ طور پر مخالفت کرتے آئے ہیں۔ ان کے بقول ری پبلکن سینیٹرز اب سنجیدہ مذاکرات کرتے نظر آتے ہیں کہ آیا کون سے اقدامات کانگریس کی منظوری حاصل کر سکتے ہیں۔اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ کانگریس بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے والے آتشیں اسلحے پر پابندی عائد کرے گی۔پولیس کے مطابق ٹیکساس کے شہر یووالڈی کے ایلمنٹری اسکول میں بچوں پر فائرنگ کرنے والے شخص نے اے آر 15 نامی گن اپنی 18ویں سالگرہ کے روز خریدی تھی۔امریکہ نے اس قسم کے ہتھیاروں کی خرید و فروخت پر 1994 سے 2004 تک پابندی عائد کر رکھی تھی لیکن کانگریس نے اس پابندی کی تجدید نہیں کی تھی۔ بائیڈن چاہتے ہیں کہ ایسے ہتھیاروں پر دوبارہ سے پابندی عائد کی جائے۔بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں رپورٹرز کو بتایا کہ اس قسم کے ہائی کیلیبر اسلحے کی حفاظت اور شکار کے لیے استعمال کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔رواں ماہ یہ دوسرا موقع تھا کہ بائیڈن نے فائرنگ کے وقوعیکا دورہ کیا تھا۔ اس سے پہلے امریکی ریاست نیویارک کے شہر بفلو میں ایک نسل پرست نوجوان کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے 10سیاہ فام افراد کے رشتے داروں سے اظہارِ افسوس کے لیے انہوں نے شہر کا دورہ کیا تھا۔دوسری طرف امریکی محکمۂ انصاف نے یووالڈی کے مئیر ڈان میک لاگلن کی درخواست پر اعلان کیا ہے کہ وہ پچھلے ہفتے منگل کے روز ہونے والے فائرنگ کے واقعے میں پولیس کے ردعمل کا جائزہ لے گا تاکہ مستقبل میں فائرنگ کے واقعات کے لیے ردعمل دینے والوں کے لیے اس واقعے سے کیا سبق سیکھا جا سکتا ہے۔ٹیکساس میں فائرنگ کے واقعے میں پولیس کے ردعمل پر تنقید کی جا رہی ہے۔ واقعے کے دوران پولیس نے گن مین سلواڈور راموس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک گھنٹے سے زائد کا وقت لیا۔جہاں اس واقعے کے دوران ایک کلاس روم میں کچھ بچے مسلح شخص کے ساتھ پھنسے ہوئے تھے اور پولیس کو مدد کے لیے کالز کر رہے تھے وہیں اس واقعے میں یووالڈی کے اسکولوں کے لیے پولیس کے چیف نے مبینہ طور پر غلطی سے یہ فیصلہ لیا کہ یہ اب جاری فائرنگ کا واقعہ نہیں رہا اور یہ کہ مسلح شخص نے خود کو ایک کلاس روم میں بند کر لیا ہے۔اس لیے اس واقعے کے دوران پولیس ٹیم کی کمان سنبھالنے والے پیٹ اریڈونڈو نے فیصلہ کیا کہ پولیس اہلکاروں کو فوری طور پر کلاس روم میں گھس کر راموس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں۔اسی دوران امریکی بارڈر پیٹرول کے کچھ اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچے اور انہوں نے کلاس روم میں گھس کر راموس کو ہلاک کیا۔ٹیکساس کے پبلک سیفٹی کے ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ اسٹیون میک کرا نے جمعے کے روز اعتراف کیا تھا کہ بادی النظر میں مسلح شخص کا مقابلہ کرنے میں انتظار کا فیصلہ غلط تھا۔