عظیم مفادات اور دیرینہ دوستی پر استوار سعودی عرب-چین تعلقات
بیجنگ/ریاض،مئی۔سعودی عرب کے فرمانروا خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اتوار کے روز سینیر سفارت کار عبدالرحمٰن الحربی کو جمہوریہ چین میں مملکت کا سفیر مقرر کرنے کا حکم جاری کیا۔ چین میں سعودی عرب کے نئے سفیر کی تقرری چین سعودیہ تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز ثابت ہوگا۔دونوں ممالک کے درمیان برسوں پرانے اقتصادی ،تجارتی اور باہمی مفادات پر مبنی دیرینہ تعلقات استوارہیں۔ یہ تعلقات اقتصادی شعبے سے آگے بڑھ کر سیاسی اور عسکری شعبے تک پھیلے ہوئے ہیں۔حالیہ برسوں میں الحربی سعودی عرب میں بہت سے اقتصادی عہدوں پر فائز رہے جہاں 2019 میں انہوں نے جنرل اتھارٹی فار فارن ٹریڈ کے گورنر کا عہدہ سنبھالا اور اس سے پہلے وہ وزارتِ تجارت میں انڈر سیکرٹری برائے خارجہ تجارت کے عہدے پر فائز تھے۔ سنہ 2016ء انہوں نے مملکت میں سرمایہ کاری، تجارت اورمالیاتی شعبے میں خدمات انجام دیں۔ اس سے قبل وہ نجی شعبے میں کئی لیڈنگ عہدوں پر فائز رہ چکیہیں۔ ان میں مملکت میں ایک علاقائی مالیاتی کمپنی کے ’سی ای او‘ کے عہدے پر خدمات شامل ہیں۔سعودی عرب اور چین کے باہمی تعلقات 80 سال پر محیط ہیں۔ ریاض نے 1939 میں بیجنگ کے ساتھ مضبوط سیاسی تعلقات کی راہ ہموار کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ نومبر 1946 میں جدہ میں دونوں ممالک کے درمیان پہلے دوستی کے معاہدے پر دستخط سے 6 سال قبل لیا گیا تھا۔اس معاہدے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات تین سمتوں میں چلتے رہے جن میں سے پہلا گذشتہ صدی کے ستر کی دہائی کے آخر میں چینی زائرین کے پہلے قافلوں کی واپسی کا آغاز تھا۔دوسرا اسی کی دہائی کے آخر میں سعودی عرب کے لیے چینی سامان کی برآمد کا راستہ کھولنا تھا۔ جب کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا تیسرا دور سیاسی تعلقات کی واپسی سے ہوا جو موثر انداز میں آگے بڑھا۔چین اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کا آغاز 1990 میں ہوا تھا اور گذشتہ 32 برسوں کے دوران دونوں ممالک نے تعلقات میں بڑی پیش رفت کی ہے جس کی عکاسی اقتصادی اور تجارتی تعاون، ثقافتی تبادلے اور بین الاقوامی مسائل پر بہتر رابطے میں کی صورت میں ہوئی ہے۔سنہ 1991 اور 1998 کے درمیانی عرصے میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں قابل ذکر ترقی دیکھنے میں آئی جس کا خلاصہ 16 دوروں اور مختلف شعبوں میں اعلیٰ سطحی وفود کی آمد ورفت کا نتیجہ ہے۔ اس کا اختتام شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے دورہ چین پر ہوا جب وہ 1998 میں ولی عہد کے عہدے پر تھے۔ سعودی عرب کا چین کے لیے یہ اعلیٰ ترین سرکاری دورہ تھا۔چین کے صدر شی جن پنگ کے دورہ سعودی عرب کے ذریعے حالیہ برسوں میں دوطرفہ تعلقات میں زبردست رفتار دیکھنے میں آئی ہے۔ تعلقات کی سطح کو ایک جامع سٹریٹجک شراکت داری کی سطح تک فروغ ملا اورسنہ 2016 میں دونوں ملکوں کے درمیان سپریم رابطہ کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا۔ سنہ 2019ء میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کے دورہ چین سے دو طرفہ تعلقات کو مزید تقویت ملی۔چین اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے تو پہلے سال کے لیے دوطرفہ تجارت کا حجم تقریباً 500 ملین ڈالر تھا، جب کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تبادلے کا حجم 2000 میں 3 ارب ڈالر سے بڑھ کر اب 67 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔ پہنچ گیا ہے۔ دو دہائیوں میں تجارتی حجم میں 22 گنا اضافہ ہے۔کنگ عبداللہ سینٹر فار اسٹڈیز کی ایک تحقیق کے مطابق 2014 سے 2019 کے درمیان سعودی عرب میں چینی کمپنیوں کی طرف سے مکمل کیے گئے کنٹریکٹ شدہ منصوبوں کی کل مالیت تقریباً 40 ارب ڈالر تھی اور یہ رقم 2008 اور 2013 کے درمیانی عرصے کی پٹرولیم ریسرچ کے تناسب سے دوگنا ہے۔سعودی عرب اور چین کے درمیان توانائی کے شعبیمیں مضبوط تعلقات قائم ہیں کیونکہ ریاض مشرق وسطیٰ میں بیجنگ کا سب سے بڑا پارٹنر ہے۔ یہ چین کے لیے تیل کا پہلا ذریعہ ہے۔سعودی عرب نے نومبر 2021 میں اوسطاً 1.8 ملین بیرل یومیہ تیل برآمد کیا جو نومبر 2020 میں اوسطاً 2.06 ملین بیرل یومیہ سے کم تھا۔دونوں ممالک "سعودی وڑن 2030” اور چینی "بیلٹ اینڈ روڈ” اقدام کے درمیان سنگھم کے ذریعے اپنے درمیان اقتصادی تعاون کو گہرا کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو کہ شاہراہ ریشم کو تخیل کو زندہ کرتا ہے۔اس تناظر میں "بیلٹ اینڈ روڈ” اقدام میں پہلا سعودی- چینی تعاون کا منصوبہ 2019 میں شروع کیا گیا جو جازان شہر میں بنیادی اور تبدیلی کی صنعتوں کے لیے چینی "پین ایشیا” کمپنی کی فیکٹری کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔