سعودی عرب صاف توانائی کا حل پیش کرنے کی کوشش کررہا ہے،مسئلہ نہیں بن سکتا:وزیرتوانائی

ریاض،مئی۔سعودی عرب کے وزیرتوانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے کہا ہے کہ ان کا ملک دنیا میں سبزتوانائی کی تبدیلی کے عمل میں ’’مسئلے کی وجہ‘‘ کے بجائے ’’حل مہیا کرنے والا‘‘ ہے۔انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ کاربن کے کم اخراج کو یقینی بنانے کے لیے زیادہ جامع اورحقیقت پسندانہ نقطہ نظرپرعمل کرنے کی ضرورت ہے۔وہ دارالحکومت الریاض میں منعقدہ مستقبل ہوابازی (فیوچرایوی ایشن)فورم میں شرکت کے موقع پرالعربیہ سے خصوصی گفتگو کررہے تھے۔انھوں نے کہا کہ ہم ایک اچھے عالمی شہری کی حیثیت سے کام کررہے ہیں اور ہم معیشت کے پائیدار اہداف کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ہم مسئلے کی وجہ ہونے کے برعکس صاف توانائی کا حل فراہم کرنے والا بن کراضافی قدم اٹھارہے ہیں۔ہوابازی کے شعبے کے حوالے سے وزیرموصوف نے کہا کہ سعودی عرب اس شعبے کی مستقبل میں توانائی کی ضروریات کو پوراکرنے کے لیے طیارہ سازوں اور خدمات مہیاکرنے والوں کے ساتھ مل کر’’سرکلرکاربن اکانومی اپروچ‘‘ پرعمل پیرا ہے۔’’اگرآپ ہوابازی کے شعبے کے لیے توانائی کی مستقبل کی ضرورت کوپورا کرنا چاہتے ہیں، دونوں صنعتوں،خدمات مہیّا کنندگان اور طیارہ مینوفیکچرر میں، تو آپ کواسے مجموعی طور پر دیکھنا ہوگا۔یہ جائزہ لینا ہوگا کہ آپ پانچ مختلف چیزوں پر طیارے کے حجم اوروزن کو کم کرنے کے لیے مزید مواد یا مختلف مواد لانے میں کس طرح مدد کرسکتے ہیں کیونکہ طیاروں کا وزن کم کرنے سے صنعت کی توانائی کی کھپت کو کم کرنے میں بہت پیش رفت ہوسکتی ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا۔شہزادہ عبدالعزیزنے کہا کہ طیاروں کے وزن میں 53 فی صدکمی سے ان میں توانائی کے استعمال میں بھی کمی لائی جاسکتی ہے اور اس کے نتیجے میں کاربن کے اخراج میں کمی آ سکتی ہے۔1960ء کی دہائی سے کاربن کے اخراج میں 80 فی صد کمی واقع ہوچکی ہے لیکن طیارے کے انجن کی کارکردگی اب بھی ایک ’’مسلسل چیلنج‘‘ہے۔انھوں نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ بات ذہن میں رکھیں کہ سروس کے استعمال اور پروازکے استعمال میں بھی فی گھنٹا سفر کے لحاظ سے اضافہ ہوا ہے،یہ تمام چیزیں نموپذیر ہیں۔پھر بھی ہم اخراج میں 80 فی صد کمی کا انتظام کرتے ہیں‘‘۔انھوں نے بتایا کہ جب سرکلر کاربن معیشت کی بات آتی ہے تواس ضمن میں ہم یہ کررہے ہیں کہ ہم خود ماخذ تک پہنچ رہے ہیں۔یہ کاربن کو مصفا بنانے کے ذریعے خود کو صاف کرنا ہیاور یہ جزومنبع سے اخراج کو کم کرے گا جو ریفائنری کے علاوہ جمع شدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے۔آپ یقین کریں یا نہ کریں، آپ اس میں سے کچھ اور مصنوعی ایندھن بنا سکتے ہیں۔ تو، یہ ضائع ہونے والا نہیں ہے‘‘۔’’ہم کبھی بھی کسی ایک مالیکیول کو استعمال کیے بغیرنہیں چھوڑیں گے۔یہ کفایت شعاری کا طریقہ نہیں ہے؛ یہ سرکلر کاربن اکانومی اپروچ ہے۔مصنوعی ایندھن جمع ہونے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ سے برآمد ہوگا۔اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ 2030 تک صرف ایک فی صد بائیو فیول استعمال کیا جائے گا‘‘۔شہزادہ عبدالعزیز کا کہنا تھا۔انھوں نے بتایا کہ فی الوقت الیکٹرک کاروں اورگریننگ ہوائی اڈوں سمیت ’’کافی کچھ‘‘اختیارات دستیاب ہیں جن کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ پوری دنیا اس خیال پر جمع ہوئی کہ ہمیں ان تمام شعبوں میں اخراج میں کمی کا حل فراہم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جن میں ہم ہیں۔اس مقصد کے لیے کم کاربن ایندھن کو زیادہ حقیقت پسندانہ سبزتوانائی تبدیلی کے عمل میں استعمال کیا جائے گا، خاص طور پر جب ہوابازی کے شعبے کی بات آتی ہے۔وزیر توانائی نے کہا :’’ہمیں پختہ یقین ہے کہ ہوابازی کا کم کاربن ایندھن مستقبل کے ایندھن کی طرف منتقل ہونے جا رہا ہے‘‘۔جب ان سے صاف توانائی کی طرف منتقلی کی رفتاراور دنیا میں تازہ پیش رفت کے اثرات کے بارے میں پوچھا گیا توانھوں نے کہا کہ وہ یہ توقع نہیں کرتے کہ منتقلی کے عمل میں کوئی رکاوٹ آئے گی بلکہ اس سے لوگوں کو’’حقیقت کی جانچ کا موقع ملے گا‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’’ہوا بازی ایک ایسی صنعت ہے جس میں طیارہ سازادارے اورخدمات مہیّا کرنے والے دونوں شامل ہیں۔میں ایسی صنعت کے بارے میں نہیں سوچ سکتا جو گذشتہ 50 سال میں زندہ رہنے کی کوشش میں تباہی سے دوچار ہوئی ہو اور مسابقت کے لیے کوشاں رہی ہو اور اب وہ ان ضروری خدمات کے مقاصد پرپورا اتر سکے،جن پر وہ روزی کما سکے اور جس پروہ زندہ رہ سکے‘‘۔

 

Related Articles