سری لنکا: صدر کے لیے نئے وزیرِ اعظم کا انتخاب بڑا چیلنج بن گیا

کولمبو،مئی۔سری لنکا میں اس وقت عملاً کوئی حکومت نہیں اور صدر گوتابایا راجاپکسے ہی امورِ مملکت چلا رہے ہیں۔ سابق وزیرِ اعظم مہندا راجاپکسے کے استعفے کے بعد عوام مطالبہ کر رہے ہیں کہ فوری طور پر نئے وزیرِ اعظم کا انتخاب عمل میں لایا جائے۔شدید معاشی بحران میں گھرے سری لنکا کو سیاسی بحران کا بھی سامنا ہے۔ ایک جانب عوام میں حکمراں پکسے خاندان کے خلاف غصہ پایا جاتا ہے تو وہیں نئی حکومت کے قیام سے متعلق صورتِ حال غیر واضح ہے۔سری لنکن آئین کے تحت صدر گوتابایا راجاپکسے کو پہلے نئے وزیرِ اعظم کے لیے امیدوار کا انتخاب کرنا ہے جسے اپنی کابینہ تشکیل دے کر امورِ مملکت چلانا ہیں۔ لیکن نئے وزیرِ اعظم کے انتخاب کے لیے 225 ارکان پر مشتمل اسمبلی میں سادہ اکثریت درکار ہے۔صدر گوتابایا کو نئے وزیرِ اعظم کا انتخاب ایسے موقع پر کرنا ہے جب اپوزیشن کی جانب سے ان سے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ پیر کو ہی گوتابایا کے بڑے بھائی اور سابق وزیرِ اعظم مہندا راجاپکسے اپوزیشن کے احتجاج کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔یاد رہے کہ گوتابایا راجا پکسے نے 2019 میں سری لنکا کے صدر کا منصب سنبھالا تھا اور اگلے ہی سال یعنی 2020 میں ان کے بڑے بھائی انتخابات میں کامیابی کے بعد ملک کے نئے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے تھے۔سری لنکا کا قومی خزانہ خالی ہو چکا ہے جس کی وجہ سے اسے بیرونی ادائیگیوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں خوراک، ادویات اور ایندھن کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ایندھن کی کمی کی وجہ سے بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ نے بھی عوام کے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مسائل میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔موجودہ غیر یقینی صورتِ حال کے باعث صدر گوتابایا کے آئندہ کے فیصلے کو خاصی اہمیت دی جا رہی ہے اور سیاسی خلا پر نہ ہونے کی صورت میں ملک میں مارشل لا کے خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے۔اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ صدر گوتابایا نے اگر اسمبلی کے کسی رکن کو وزارتِ عظمیٰ کے لیے نامزد کیا تو وہ اسمبلی سے اکثریت حاصل کر سکے گا یا نہیں۔صدر گوتابایا متحدہ حکومت کی تشکیل کی کوشش کرسکتے ہیں لیکن بظاہر ایسا ممکن ہوتا نظر نہیں آتا کیوں کہ اپوزیشن ارکان کو اتحاد میں شامل کرنا ان کے لیے ایک مشکل ٹاسک ہو گا۔اگر صدر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیتے ہیں تو پارلیمنٹ کے اسپیکر ایک ماہ کے لیے نگراں صدر کے طور پر فرائض انجام دیں گے اور اس عرصے کے دوران پارلیمنٹ ایک نئے صدر کا انتخاب کرے گی تاوقتیکہ کے انتخابات نہیں ہو جاتے۔اپوزیشن کے لیے صدر گوتابایا کا مواخذہ بھی آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے پارلیمنٹ کے اسپیکر، سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے کم از کم 150 ارکان کی حمایت درکار ہوگی۔ جب کہ حزبِ اختلاف کے پاس پارلیمنٹ میں اکثریت بھی نہیں ہے۔سری لنکا کے 45 سالہ صدارتی نظامِ حکومت میں صدر کو عہدے سے ہٹانے کی صرف ایک مرتبہ ناکام کوشش ہوئی ہے۔ سری لنکا کے آئین تحت صدر ملک کی مسلح افواج کا کمانڈر ان چیف ہوتا ہے جو کابینہ کا سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس، پولیس سربراہ اور دیگر اہم تعیناتیاں کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔مذکورہ تمام اختیارات کے باوجود صدر کو امورِ مملکت چلانے کے لیے وزیرِ اعظم اور کابینہ کی ضرورت ہے۔

Related Articles