یوکرین جنگ میں مداخلت کی گئی تو برق رفتاری سے جواب دیا جائے گا، پوٹن
ماسکو،اپریل ۔ روسی صدر کا کہنا ہے اگر کوئی ملک یوکرین کی جنگ میں مداخلت کرنے کی کوشش کرے گا، تو اسے برق رفتار رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ادھراقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل یوکرین کے صدر سے ملاقات کے لیے کییف پہنچ گئے ہیں۔روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے 27 اپریل بدھ کے روز ایک بار پھر سے خبردار کرتے ہوئے کہا یوکرین میں مغربی ممالک کی مداخلت کا برق رفتار فوجی رد عمل سامنے آئے گا۔ ان کی جانب سے یہ دھمکی ایسے وقت سامنے آئی ہے جب بدھ کے روز ہی روس نے جنوبی یوکرین میں ایک میزائل حملے کا دعویٰ کیا۔روسی عسکری حکام کے مطابق اس میزائل حملے میں مغربی ممالک کی جانب سے فراہم کردہ ہتھیاروں کی ایک بڑی کھیپ کو تباہ کر دیا گیا۔ روسی صدر کے بیان کا اشارہ بظاہر نیٹو اتحاد کی طرف ہے۔ روس کے صدر پوٹن نے کہا کہ یوکرین کی مدد کرنے والے وہ ممالک جو یوکرین میں اس کارروائی کے دوران کسی ایک جانب سے مداخلت کرتے ہیں اور روس کے لیے ناقابل قبول اسٹریٹیجک خطرات پیدا کر رہے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے رد عمل میں ہمارا جوابی گھونسا برق رفتار ہو گا۔ پوٹن نے سینٹ پیٹرزبرگ میں قانون سازوں کے ساتھ بات چیت میں بیلسٹک میزائلوں اور جوہری ہتھیاروں کا واضح حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’ہمارے پاس اس کے لیے ایسے تمام تر ساز و سامان اور آلات موجود ہیں جن پر ہمارے علاوہ کوئی دوسرا فخر نہیں کر سکتا۔ان کا مزید کہنا تھا، ہم ان پر بہت فخر یا زیادہ باتیں نہیں کریں گے،ضرورت پڑنے پر ہم ان کا استعمال کریں گے اور میں چاہتا ہوں کہ ہر کوئی اسے اچھی طرح سے جان لے۔ ہم نے اس بارے میں تمام فیصلے پہلے ہی کر لیے ہیں۔روسی رہنما نے کسی مخصوص ہتھیار کا اس موقع پر ذکر نہیں کیا تاہم انہوں نے حال ہی میں سرمٹ نامی ایک نئے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کے کامیاب تجربے کی خود ہی سرپرستی کی تھی۔ سرمٹ میزائل ایک ساتھ 10 یا اس سے بھی زیادہ جوہری وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسے بہت جلد تعینات کرنے کا ارادہ بھی ہے۔ پوٹن نے قانون سازوں سے بات چیت میں کہا کہ انہوں نے یوکرین کے خلاف جو خصوصی فوجی آپریشن جاری کر رکھا اسے انجام تک پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے یوکرین میں جاری جنگ کو بھڑکانے کی ذمہ داری نیٹو ممالک اور ان کے اتحادیوں پر عائد کی۔ان کا کہنا تھا، جو ممالک تاریخی طور پر روس پر قابو پانے کی کوشش کرتے رہے ہیں، انہیں ہمارے جیسے خود کفیل اور بڑے ملک کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا وجود ہی ان کے لیے خطرہ ہے۔ لیکن یہ بعید از حقیقت بات ہے۔ در اصل وہ خود پوری دنیا کے لیے خطرہ ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یوکرین میں جارحانہ کارروائی شروع کر کے، روسی افواج نے ایک ایسے بڑے تنازعے کے حقیقی خطرے کو بے اثر کر دیا ہے، جو دوسرے لوگوں کی لکھی گئی اسکرپٹ کے مطابق ہماری سرزمین پر آشکار ہو سکتا تھا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ نیٹو نے یوکرین کے جزیرہ نما کرائمیا، جسے ماسکو نے 2014 میں ضم کر لیا تھا، اور علیحدگی پسندوں کے زیر قبضہ مشرقی ڈونباس سرحدی علاقے کے ذریعے روس پر حملہ کرنے کے راستے کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔پوٹن نے کہا، 24 فروری کو شروع کیے جانے والے خصوصی فوجی آپریشن کے تمام کام جو ہم ڈونباس اور یوکرین میں کر رہے ہیں، غیر مشروط طور پر پورے کیے جائیں گے۔ پوٹن نے دعوی کیا کہ پابندیوں کے ذریعے روس کا معاشی طور پر گلا گھونٹنے کی مغربی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں۔ ادھر بدھ کے روز بھی میدان جنگ میں مستحکم فرنٹ لائن کے ساتھ لڑائی جاری رہی اور روس نے دعویٰ کیا کہ اس کے میزائلوں نے ہتھیاروں کی ایک کھیپ کو نشانہ بنایا جو امریکہ اور یورپی ممالک نے یوکرین کو فراہم کیے تھے۔بعض مغربی حکام نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ مشرق میں ڈونباس کے علاقے میں معمولی کامیابی کے ساتھ روس کی سست پیش رفت جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایزیوم کے جنوب میں اور روبیزن کے مضافاتی دیہاتوں اور چھوٹے شہروں پر روسی فوج نے قبضہ کر لیا ہے۔تاہم حکام کے مطابق ناقص کمان، فوجیوں اور ساز و سامان کے نقصانات، خراب موسم اور یوکرین کی مضبوط مزاحمت کی وجہ سے روس کو کافی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔یوکرین کے اتحادیوں نے حالیہ دنوں میں ہتھیاروں کی سپلائی میں اضافہ کر دیا ہے اور امریکہ نے اس بات کو یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے کہ یوکرین روس کو شکست دے گا۔ مغربی حکام کا کہنا ہے کہ مشرق میں روس کی کوششوں میں رکاوٹیں آ رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے روس نے دارالحکومت کییف کے آس پاس کے علاقوں سے انخلاء کے بعد ڈونباس کے علاقے پر قبضے کے لیے ایک بڑی کارروائی شروع کی تھی۔ تاہم حکام کے مطابق روسی افواج کو سخت یوکرینی مزاحمت پر قابو پانا مشکل ہو رہا ہے اور انہیں نقصان بھی ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش یوکرین کے صدر وولودمیر زیلنسکی سے ملاقات کے لیے کییف پہنچ گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سربراہ وزیر خارجہ دیمیٹرو کولیبا سے بھی ملاقات کریں گے اور دارالحکومت سے باہر کسی نامعلوم مقام کا دورہ کرنے والے ہیں۔ہفتے کے آغاز میں گوٹیرش نے ماسکو میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کی تھی اور کہا جاتا ہے کہ دونوں نے ماریوپول شہر میں محاصرہ شدہ اسٹیل کے ایک کمپلیکس کے ممکنہ انخلاء پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں نے انخلاء میں حصہ لینے والے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی ریڈ کراس کی شمولیت سے اصولی طور پر اتفاق بھی کیا ہے۔