روس یوکرین جنگ: بوچا کی سڑکوں پر لاشیں اور ناکارہ ٹینک بکھرے پڑے ہیں
بوچا،اپریل۔یوکرین کے دارالحکومت کیئو کے پاس بوچا وہ مضافاتی مقام ہے جسے روس کی امیدوں کے اولین قبرستانوں میں سے ایک کہا جا سکتا ہے۔ روس اس راستے دارالحکومت کیئو میں داخل ہوکر اسے پہلے اپنے قبضے میں لینا اور پھر صدر ولادیمیر زیلنسکی کی حکومت کو معزول کرنا چاہتا تھا۔یہ لمحہ 24 فروری کے دو تین دنوں کے بعد سامنے آیا جب روسی افواج نے یوکرین پر حملہ کیا تھا اور جب روسی افواج کیئو شہر جانے کے لیے بوچا سے گز رہی تھی تو وہاں روسی ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے ایک پورے کالم کو تباہ کر دیا گیا۔یہ قافلہ یوکرین کے پہلے حملوں میں سے ایک میں تھا جس میں اس قدر تباہی ہوئی کہ اس نے روسی پیش قدمی کو بالکل روک دیا تھا۔ہماری بی بی سی ٹیم کو بوچا تک پہنچنے میں اس وقت کامیابی ملی جب جمعے کے روز روس نے اپنے آخری فوجی کو وہاں سے واپس بلا لیا اور اپنی اس حکمت عملی کو کریملن نے مشرقی یوکرین کی جنگ پر توجہ مرکوز کرنے کے ایک پرسکون اور دانشمندانہ فیصلے کے طور پر پیش کیا ہے۔بغیر کسی شواہد یا کسی بھروسے کے ماسکو کا کہنا ہے کہ وسطی یوکرین میں اس نے اپنے جنگی مقاصد حاصل کر لیے ہیں، اور اس کے مقاصد میں کبھی بھی کیئو پر قبضہ کرنا شامل نہیں تھا۔سچ یہ ہے کہ غیر متوقع طور پر یوکرین کی جانب سے شدید اور منظم مزاحمت نے روسی افواج کو دارالحکومت سے باہر روک دیا، اور اس کا ثبوت کالم کے وہ زنگ آلود اور ٹوٹے پھوٹے جنگی سازو سامنا ہیں جو اب بھی وہیں پڑے ہیں جس مضافاتی گلی میں انھیں تباہ کیا گیا تھا۔جنگ کی ابتدا کے دو یا تین ہفتے بعد ہی روسی حملہ آوروں کی رفتار ختم ہو گئی۔ اور اس کا جواب بوچا میں سڑکوں پر آپ کو مل سکتا ہے کہ آخر ایسا کیونکر ہوا۔روس کی فضائی افواج کے ایلیٹ دستے ان بکتر بند گاڑیوں میں سوار ہوئے جو اتنے ہلکے تھے کہ ہوائی جہاز کے ذریعے لے جائی جا سکتی تھیں۔ ان گاڑیوں پر سوار ہو کر وہا قبصے میں داخل ہوئے۔ وہ چند میل کے فاصلے پر موجود ہوسٹومل ہوائی اڈے سے آئے تھے، جسے حملے کے پہلے دن ہی ہیلی کاپٹر کے ذریعے اترے ہوئے روسی چھاتہ برداروں نے قبضہ کر لیا تھا۔ اس وقت بھی یوکرین کی افواج کی جانب سے شدید مزاحمت کی گئی تھی۔جب یہ فوجی دستہ کیئو جانے کے لیے بوچا کے راستے سے گزر رہا تھا تو انھیں سخت حیرت کا سامنا تھا۔یہاں سڑک تنگ اور سیدھی ہے جو کہ گھات لگانے کے لیے ایک مثالی جگہ کہی جا سکتی ہے۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ یوکرینیوں نے قافلے پر ترکی سے خریدے گئے بیرکتار ڈرونز سے حملہ کیا۔ دوسرے پڑوسیوں نے کہا کہ یوکرین کے علاقائی دفاعی رضاکار بھی اس علاقے میں موجود تھے۔بہر حال انھوں نے یہ کام انجام دیا اور پہلی گاڑیوں اور آخری گاڑیوں کو نشانہ بنا کر بکتربند گاڑیوں کو تقریبا محسور کر دیا۔ ملبے کو ابھی تک چھوا نہیں گیا ہے۔ 30 ملی میٹر توپ کے گولوں کی بیلٹ گھاس کے کنارے پر پڑی ہیں، اس کے ساتھ بہت سے خطرناک اور تباہ شدہ فرمان کے ٹکڑے بھی پڑے ملے۔مقامی لوگوں نے کہا کہ نوجوان فوجی جان کی بھیک مانگتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے کہ انھیں یوکرین کے علاقائی دفاع کے حوالے نہ کیا جائے۔ تقریبا 70 سال کی عمر کے ایک شخص جو خود کو انکل ہریشا کہتے ہیں، انھوں کہا: مجھے ان پر ترس آیا۔ وہ بہت کم عمر تھے، 18 سے 20 سال کے ہوں گے اور ان کی پوری زندگی ان کے آگے پڑی تھی۔ ایسا لگتا ہے جب روسیوں نے بوچا سے نکالنے کی تیاری کی تو ان میں اس طرح کا رحم نہیں تھا۔ جب یوکرین کے فوجی قصبے میں داخل ہوئے تو انھیں کم از کم 20 مردے گلی میں پڑے ہوئے ملے۔ ان میں سے کچھ کے ہاتھ کمر کے پیچھے بندھے ہوئے تھے۔ میئر نے کہا کہ انھوں نے 280 افراد کو اجتماعی قبروں میں دفن کیا ہے۔جو چند شہری وہاں رک گئے تھے انھوں نے کہا کہ انھوں نے یہ کوشش کی کہ روسیوں کا سامنا نہ ہو۔ وہ اپنے خروشچییف دور کے فلیٹوں کے باہر لکڑیوں میں آگ لگا کر اس پر ہی کھانا بنا رہے تھے کیونکہ ان کی گیس، بجلی اور پانی کی سپلائی منقطع کر دی گئی تھی۔رضاکار مغربی یوکرین کے لویو یا کم از کم جغرافیائی طور پر جنگ سے دور ممالک سے رسد پہنچا رہے ہیں۔ماریہ نامی ایک خاتون نے پلاسٹک کے تھیلے، جس کے اندر کچھ معمولی قسم کے بن رکھے تھے، کو دیکھتے ہوئے کہا 38 دنوں میں یہ وہ پہلی روٹی ہے جو ہم نے کھائی ہے۔ ان کی بیٹی لاریسا نے مجھے سوویت یونین کی دور کے تعمیر شدہ اپارٹمنٹس کی سیر کرائی۔بہت سے لوگ جو محفوظ علاقوں، یا بیرون ملک روانہ ہوگئے تھے، انھوں حفاظتی دروازے بند کر دیے تھے۔ روسیوں نے کنکریٹ کے لنٹل توڑ دیے تھے اور دروازے کی چوکھٹوں کو اکھاڑ دیا تھا۔تباہی کے نشانات کچھ میل کے فاصلے پر ہوسٹومل ہوائی اڈے تک نظر آتے ہیں۔ روسی فضائیہ کے دستے اسے کیف میں داخل ہونے کے لیے اڈے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش میں تھے۔شروع میں ہی دنیا کا سب سے بڑا ٹرانسپورٹ طیارہ تباہ ہو گیا تھا۔ اس بڑے طیارے کے شیڈ کی چھت چھلنی ہو گئی تھی اور اس میں گولیوں کے سوراخ تھے۔ خود طیارہ جسے یوکرائنی لفظ میں خواب (مریا) کے نام سے جانا جاتا ہے کمر سے ٹوٹ گیا ہے، اور شکستہ حالت میں پڑا ہے جبکہ اس کے جسم اور انجن کے بڑے بڑے ٹکڑے ادھر ادھر پڑے ہیں۔ اس کا انجام یوکرین کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اس کی ایک مثال ہے۔واضح رہے کہ یوکرین کی پوری دنیا میں بڑے منصوبے بنانے کی صلاحیت کی علامت کے طور پر ہوائی جہاز میں قومی افتخار کے لیے ایک بہت بڑی رقم لگائی گئی تھی۔