مصر کی میزبانی میں اماراتی اور اسرائیلی رہنماؤں کی تاریخی ملاقات
قاہرہ،مارچ۔یوکرین پر روسی حملے سے اقتصادی استحکام کے متعلق خدشات پیدا ہوئے ہیں اور تینوں رہنماؤں نے قاہرہ میں غذائی تحفظ پر تبادلہ خیال کیا۔ تاہم اسرائیل ایران کے خلاف اپنے اتحاد کو مضبوط کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔مصر، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے رہنماؤں نے 22 مارچ منگل کے روز بحیرہ احمر کے تفریحی مقام شرم الشیخ میں ملاقات کی۔ متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے کے بعد اپنی نوعیت کا یہ پہلا اجلاس تھا، جس میں مصر نے تین رہنماؤں کی ایک ساتھ میزبانی کی۔ اطلاعات کے مطابق اس سہ فریقی میٹنگ میں یوکرین پر روسی حملے کے تناظر میں اقتصادی امور پر پڑنے والے اثرات پر توجہ مرکوز کی گئی۔لیکن اسرائیلی میڈیا نے اس طرح کی بھی اطلاعات دی ہیں کہ ملاقات کے دوران خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا اور اس موضوع پر تینوں رہنماؤں نے تبادلہ خیال کیا۔اطلاعات کے مطابق مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی، اسرائیلی وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ اور متحدہ عرب امارات کے حقیقی حکمران شیخ محمد بن زید النہیان نے پیر اور منگل کے روز قاہرہ میں ملاقاتیں کیں۔مصری ایوان صدر کے ایک بیان کے مطابق، تینوں رہنماؤں نے توانائی کی منڈی کے استحکام اور غذائی تحفظ جیسے مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔ یوکرین میں جنگ کے سبب گندم اور خام تیل کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور حالیہ ہفتوں میں ان مسائل کے سبب قاہرہ کو شدید چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔متحدہ عرب امارات کی سرکاری خبر رساں ایجنسی، ڈبلیو اے ایم، نے اس میٹنگ کے حوالے سے کہا کہ تینوں رہنماؤں نے، باہمی تشویش کے متعدد علاقائی اور عالمی مسائل اور اس کی متعلقہ پیش رفت پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ کے دفتر کا کہنا ہے کہ تینوں ممالک نے اپنی بات چیت میں تمام سطحوں پر تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال کیا، تاہم اس بیان میں اہم موضوع کے طور ایران کا نام نہیں لیا گیا۔لیکن اسرائیل کے نائب وزیر خارجہ ایڈان رول نے کہا کہ تل ابیب، ایران کے بنیاد پرست محور کے خلاف کسی بھی ممکنہ ساتھی کے ساتھ اچھی شراکت داری قائم کرنے کے لیے پر عزم ہے۔ ایڈان رول نے مقامی ریڈیو کان سے بات چیت میں کہا، ہم واضح طور پر ایک اس محور کی مضبوطی کو دیکھ رہے ہیں، جو مشرق وسطی میں ایک الگ بیانیہ پیش کرتا ہے۔ اور یہ کہ ہم ایک ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں اور اقتصادی اور دفاعی معاملات پر تعاون بھی کر سکتے ہیں۔ ایران اور امریکہ سمیت دیگر مغربی طاقتیں سن 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے ایک معاہدہ کے قریب تر ہیں۔ لیکن اسرائیلی وزیر اعظم بینیٹ اس معاہدے کے سخت مخالف ہیں۔مصر، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات اب ایک ابھرتے ہوئے عرب اسرائیل محور کا حصہ ہیں جو ایران کی سیاسی طاقت کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔متحدہ عرب امارات نے 2020 میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کیے تھے، جب کہ مصر وہ پہلا عرب ملک تھا جس نے کئی دہائیوں کے تنازع کے بعد سن 1979 میں ہی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔