ماریوپول میں اب بھی ایک لاکھ افراد ’غیر انسانی حالات‘ میں محصور ہیں، صدر زیلنسکی کا دعویٰ
کیئو،مارچ۔یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ ملک کے جنوب میں ساحلی شہر ماریوپول میں اب بھی ایک چوتھائی آبادی یعنی تقریباً ایک لاکھ افراد ‘غیر انسانی حالات‘ میں پھنسے ہوئے ہیں۔منگل کی شب اپنے یومیہ فیس بک خطاب میں یوکرینی صدر نے ماریوپول میں پھنسے افراد کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ‘ان افراد کے پاس نہ پانی ہے، نہ خوراک ہے، نہ ہی ادویات ہیں اور وہ مسلسل بمباری اور گولہ باری کی زد میں ہیں۔‘جنگ کے آغاز سے ہی یوکرین کا شہر ماریپول اپنی علاقائی اہمیت کے باعث روسی فوج کا اہم ہدف رہا ہے اور ہفتوں سے وہاں بلاتفریق بمباری جاری ہے۔انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی 21 مارچ کو جاری ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ‘یہ شہر ایک ایسی جہنم کا منظر پیش کر رہا ہے جہاں ہر طرف لاشیں اور تباہ حال عمارتیں ہیں۔‘گذشتہ روز میکسر ٹیکنالوجیز کی جانب سے جاری کردہ سیٹلائٹ تصاویر میں اس شہر میں تباہی اور نقصان کی شدت ظاہر کی گئی ہے۔صدر زیلنسکی کا اپنے خطاب میں یہ بھی کہنا تھا کہ یوکرینی حکام اور اتحادی ماریوپول شہر میں امداد پہنچانے اور شہریوں کے انخلا کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ گذشتہ روز شہر سے تقریباً سات ہزار افراد کے انخلا کو ممکن بنایا گیا ہے۔صدر زیلنسکی نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس نے طے شدہ انسانی راہداریوں کے ذریعے انخلا کرنے والے شہریوں پر بھی حملے کیے ہیں۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ منگل کو روسی فوجیوں نے ایک انسانی ہمدردی کے قافلے کو حراست میں لے لیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قافلے میں موجود ایمرجنسی سروسز کے اہلکاروں اور بس ڈرائیور کو قیدی بنا لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم شہریوں کو روسی فوج سے آزاد کروانے اور انسانی ہمدردی کے تحت امداد پہنچانے کی راہداریوں کو کھولنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔‘یاد رہے کہ چند روز قبل یوکرین نے روس کی جانب سے ساحلی شہر ماریوپول میں ہتھیار ڈالنے کے بدلے شہریوں کو نکالنے کے لیے محفوظ راستہ دینے کی تجویز مسترد کر دی ہے۔روس نے تجویز دی تھی کہ اگر یوکرین کے فوجی ہتھیار پھینک دیں تو ایسی صورت میں عام شہریوں کو شہر سے نکلنے کی اجازت دی جائے گی۔ مگر یوکرین نے یہ کہتے ہوئے اس پیشکش کو رد کر دیا کہ وہ اپنے اس اہم ساحلی شہر سے کسی صورت دستبردار نہیں ہو گا۔ادھر روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کو مسترد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو دیے ایک انٹرویو میں پیسکوف کا کہنا تھا کہ اگر ملک کے وجود کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو جوہری ہتھیاروں کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔امریکہ نے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے اسے غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ پینٹاگون کا کہنا ہے ایک ایٹمی قوت کے حامل ملک کا یہ ذمہ دارانہ رویہ نہیں ہے۔ سفارتی محاذ پر صدر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ روس کے ساتھ مذاکرات متنازعہ ہیں لیکن ہم آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے ہیں۔دوسری جانب امریکی صدر کے جمعرات کو برسلز کے دورے کے دوران روس پر مزید پابندیاں متوقع ہیں۔ اس دورے میں امریکی صدر نیٹو اور جی سیون اتحاد کے رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔ اس اجلاس میں یوکرین کے صدر زیلنسکی کی بھی ویڈیو خطاب متوقع ہے۔ یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ صدر اس موقع پر مزید فضائی دفاعی نظام کی مدد طلب کریں گے۔خبروں کے مطابق ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ امریکہ اور اتحادی روس کو جی ٹوئنٹی اتحاد سے باہر نکالنے کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔ خبروں کے مطابق منگل کو پولینڈ نے امریکہ کو تجویز دی ہے کہ وہ روس کو جی 20 اتحاد سے نکالنے کی صورت میں اس کی جگہ شامل ہو سکتا ہے جس پر انھیں مثبت جواب دیا گیا ہے۔جی ٹوئنٹی دنیا کی بڑی معشیتوں کا ایک اتحاد ہے جس کا مقصد عالمی معیشت پر پڑنے والے اثرات پر مشترکہ حکمت عملی اور فیصلہ سازی کرنا ہے۔ جس میں موسمیاتی تبدیلی اور ڈویلپمنٹ شامل ہیں۔ اگر ایسا کوئی اقدام اٹھایا جاتا ہے تو یہ روس پہلے سے عائد اقتصادی پابندیوں میں مزید اضافہ کرے گا۔تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ چین، انڈیا اور سعودی عرب جیسے ممالک اس اقدام پر ویٹو کر سکتے ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس صورت میں مغربی ممالک کے اتحاد جی سیون کے رکن ممالک رواں برس جی 20 اجلاس کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں۔ادھر جنگ کے ستائیسویں دن یوکرین کی فوج نے ملک کے بیشتر علاقوں پر اپنا قبضہ قائم رکھا ہوا ہے اور روسی فوج پر مؤثر جوابی حملے کر رہی ہے جس کے باعث روس کی فوج کی زمینی پیش قدمی رک گئی ہے۔یوکرین کی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ روسی فوجیوں کے حوصلے پست ہو گئے ہیں اور روسی حکام سابق فوجیوں کو لڑائی کے لیے بھرتی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔جبکہ روس کی جانب سے یوکرین کے مخلتف شہروں پر بمباری کا سلسلہ جاری ہے اور ملک کے جنوبی شہر ماریوپول میں لڑائی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور تاحال روسی جنگجوؤں نے شہر کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ روس کا توپ خانہ اور فوجی یوکرین کے دارالحکومت کیئو کے مضافات میں اپنے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں۔ ادھر مشرقی شہر خارخیو کا قبضہ ابھی تک یوکرینی فوج کے پاس ہے۔روسی کی بحریہ بحیرہ اسود میں اوڈیسا کے ساحل کے قریب موجود ہے۔انسٹی ٹیوٹ فار سٹڈی آف وار نے خبردار کیا ہے کہ روس کی جانب سے کیئو، خارخیو اور اوڈیسا جیسے یوکرین کے اہم شہروں پر ابتدائی طور پر قبضہ کرنے میں ناکامی پر اس جنگ میں مزید خون خرابہ اور شدت آ سکتی ہے اور یہ مزید کئی ہفتوں یا مہینوں جاری رہ سکتی ہے۔برطانوی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ یوکرینی فوج کی جانب سے مزاحمت کی شدت نے روسی فوج کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے۔ برطانوی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اب روسی فوج آہستہ آہستہ تباہی کی حکمت عملی اپنا رہی ہے جس کے نتیجے میں مزید شہری ہلاکتیں اور شہریوں کی تباہی ہو گی۔