نیوزی لینڈ کی وہ انوکھی ’خفیہ‘ جھیل جس سے وہاں کے مقامی بھی بے خبر ہیں
اوٹاگو ،نیوزی لینڈ،مارچ۔یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ نیوزی لینڈ جہاں جھیلوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، وہیں ایک ندی میں موجود برف کے نیلے ٹکڑوں، تیزابی آتش فشانی تالابوں میں ایک خفیہ جھیل بھی موجود ہے۔اور اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس جھیل جس کے بارے میں بہت کم لوگ آگاہ ہیں ایک ایسی جگہ ہے جو باآسانی دکھائی دیتی ہے اور یہ جس جزیرے پر ہے وہاں ملک کی مشہور جھیلیں موجود ہیں جہاں ہزاروں سیاح پانی میں موجود بید کے درختوں کی تصویر لینے کے لیے آتے ہیں۔لیکن نیوزی لینڈ میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنھوں نے کبھی بھی اریتھوسہ پول کے بارے میں نہیں سنا۔ یہ صاف پانی کی ایک جھیل ہے جو کہ موواہو جزیرے میں واناکا نامی جھیل کے اوپر ہے۔ یہ نیوزی لینڈ کے جنوبی جزیرہ ہے جو کہ اوٹاگو خطے میں واقع ہے۔ہم نے اریتھوسا تالاب کی سطح پر اٹھتی ہلکی ہلکی لہروں، جھولتے ہوئے مقامی پودوں کے عکس میں جھیل کے پانی کو دیکھا وہ پونامو جیسا دکھتا ہے۔ جوسبز رنگ کا ایک پتھر ہے اور اسے نیوزی لینڈ میں ماؤری کہلائے جانے والے لوگوں کے پاس ملتا ہے۔دو چھوٹے چھوٹے چٹانوں کے جزیرے بون سائی لینڈ سکیپ سے مماثل رکھتے ہیں اور جھیل کی سجاوٹ کرتے ہیں ایسے جیسے شادی کی تقریب میں رکھے کیک کی سب سے اوپر والی سطح سب سے زیادہ آرائش ہوتی ہے۔ ان کے لیے جھیل میں ایک جزیرے پر، سمندر میں ایک جزیرے پر۔ایک ملک میں جو اپنے نظاروں کے حوالے سے بھی بہت مشہور ہے یہ وہاں سب سے بہترین ہے۔ ایریتھوسا پول یہاں آنے والی آخری آئس ایج (زمین پر برف کی موٹی تہہ بچھ جانے) کے دوران بنی۔بظاہر یہ جھیل واناکہ سے 150 میٹر اوپر لٹکی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ جو کہ پہاڑوں کے درمیان گھری ہوئی ہے اس میں ریڑھ کی ہڈی جیسے ایلپس بھی شامل ہیں جو کہ جنوبی جزیرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بہار کے آخر میں بھی برف سے ڈھکے رہتے ہیں اور کچھ بادلوں میں لپٹے ہوئے ہوتے ہیں۔تیس منٹ تک کے کشتی کے سفر میں آپ کو نہ تو تہذیب کے آثار دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی واناکہ ٹاؤن شپ کا کوئی اشارہ ملتا ہے۔مگر اس خوبصورت جزیرے کے مناظر کے علاوہ کچھ اور بھی ہے۔ ماؤ واہو جس کا مطلب ہے بیرونی جزیرہ، یہ یہاں واناکہ جھیل یں چار بڑے جزیروں میں سب سے بڑا ہے۔120 ہیکٹر پر محیط یہ مٹی کی تہہ میں موجود چٹانوں کا راستہ ہیاگرچہ یہاں پر آپ آزادانہ طور پر آ سکتے ہیں اور رات کیمپنگ کی اجازت بھی ہوتی ہے لیکن یہ شکاریوں سے پاک ہے اور یہاں غیر معمولی ملکی انواع کی حفاظت ہوتی ہے۔کرس ریلے جن کا تعلق ایکو وانکا ایڈونچر سے ہے وہ یہاں سنہ 2006 سے سیاحوں کو آدھے دن کے ٹور پر لے کر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔یورپی آبادکاری سے پہلے ماؤ وہو میں مقامی جنگلات بہت شاندار تھے۔ یہاں ٹوٹورا اور متائی بھی موجود تھے لیکن سنہ 1860 میں کشتیاں بنانے کے کاروبار کی وجہ سے اس جزیرے کے تمام مقامی وسائل چوری ہو گئے۔ اور یہاں پر ریڈیایٹا پائن اور ڈوگلس فِر کے غیر مقامی درختوں کو متعارف کروایا۔بھیڑوں کے چرنے اور بہت بار جنگل میں آگ لگنے کی وجہ سے مقامی پودے تباہ ہو گئے اور اس سے نتیجتاً یہ ہوا کہ چیڑ کے درخت تیزی سے پھیلنے لگے۔جب ریلی نے پہلی بار سنہ 1991 میں یہاں کا دورہ کیا تب یہ آج سے بہت مختلف علاقے تھے۔ چیڑ کے درختوں نے مقامی درختوں کو ڈھانپ رکھا تھا اور یہاں حیاتیاتی بہت ہی تنوع کم تھا۔سنہ 1988 میں تحفظ سے متعلق ڈیپارٹمنٹ نے وانکا کے جزیرے کا انتظام سنبھالا اور پھر وہاں حشرات کے خاتمے، چوہوں کو پکڑنے، اوپوسم نامی چھوٹے جانور، سٹوٹس اور گرتے ہوئے چیڑ کے درختوں کو ختم کرنے کے لیے پروگرامز شروع کیے۔پھر کمیونٹی کی سطح پر مقامی پودوں کو لگانے سلسلہ دوبارہ سے شروع کیا گیا۔ سنہ 1995 میں ماؤ واہو کو حشرات سے پاک علاقہ قرار دیا گیا۔ یہاں اب علاقائی پرندوں کو دوبارہ آنے کا راستہ ملا جو کہ جنوبی جزیرے سے ایک صدی سے غائب ہو چکے تھے۔بف ویکا مرغی کے سائز کا جانور ہے لیکن یہ اڑ نہیں سکتا۔یہ سنہ 1920 میں نیوزی لینڈ سے ناپید ہو گئی تھی جس کی وجہ اس کا اپنا مسکن ختم ہو جانا اور نیولوں اور سٹوٹس کی جانب سے ان کا شکار کیا جانا تھی۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ان گوشت خور جانوروں کو سنہ 1800 کے اواخر میں یہاں لایا گیا تاکہ خرگوش کو کنٹرول کیا جا سکے۔ جس اس سے پہلے 1800 کے آغاز میں یورپی آبادکار لے کر آیے تھے۔ وہ اس کا گوشت بھی کھاتے تھے اور اسے کھیلوں میں بھی شامل کرتے تھے۔مگر ان متعارف کیے گئے ممالیہ کے لیے بف ویکا نامی مقامی پرندے کو شکار کرنا آسان تھا اور اس سے بہت سی انواع معدوم ہوئیں۔یہ اندازہ لگایا گیا کہ غیر مقامی شکاری جن میں پوسمز اور فیرل بھی شامل ہیں جنھوں نے 25 ملین مقامی پرندوں کو ایک سال میں مار دیا۔ اس کی وجہ سے نیوزی لینڈ کو 2050 تک شکاریوں سے پاک کرنے کے پروگرام کو تحریک ملی۔سن0 1905 میں نیوزی لینڈ کے جزیرے کیتھم میں 12 بف ویکا منتقل کی گئی۔ یہ مین لینڈ سے 800 کلومیٹر دوری پر مشرق میں ہے۔ یہاں ان کی افزائش ہوئی۔سنہ 2002 میں ایک مشترکہ پروگرام کو اوٹاگو کی نگائی ٹاہو ماؤری کمیونٹی اور ماحول کے تحفظ کے ڈیپارٹمنٹ کے مشترکہ تعاون سے شروع ہوا۔ اس میں 30 بف ویکا کو کیتھم سے واناکہ کے ٹی پیکا قرارا نامی جزیرے میں منتقل کیا گیا تاکہ وہاں ان کی افزائش ہو۔ یہاں مقصد یہ تھا کہ انھیں دوبارہ سے مین لینڈ میں متعارف کروایا جائے۔سنہ 2004 میں 35 ویکا کو ماؤ واہو سے آزاد کیا گیا جہاں ان کی آبادی 200 پرندوں تک پہنچ چکی تھی۔جب ہمارا چھوٹا سا گروہ وہاں پہنچا تو ویکا ذرا اکڑ کر ہمارے سامنے سے گزری جو اس کی واضح علامت تھی کہ ہم نے ان کی حدود میں مداخلت کی ہے۔سٹو تھارن جو ماحول کے تحفظ کے ڈیپارٹمنٹ میں مینیجر تھے کا کہنا ہے کہ ویکا کو ماؤ واہو میں چھوڑنا تحفظات کے بغیر نہیں تھا۔’ہماری بنیادی پریشانی یہ تھی کہ شاید وہ کچھ چھپکلیوں اور ریڑھ کی ہڈی کے بغیر جانوروں کو ختم کر دیں خاص طور پر پہاڑی سٹون ویٹا کو۔رائلی اور ایڈے جنھوں نے ماحول کے تحفط کے متعلق ماؤری کے نظریے کو اپنا نے یہاں ہر جزیرے پر جا کر مقامی پھلوں کے درخت لگائے۔ مجموعی طور پر وہاں 8000 درخت لگائے گئے۔ جب ہم وہاں گئے تو ہم نے وہاں گوبھی کا ایک چھوٹا سا درخت لگایا۔ اسے ہم نے ایک بڑے پودے کے ساتھ لگایا جس کے گولائی میں موجود تسمہ نما پتے طیارہ شکن توپ کی مانند دکھائی دے رہے تھے۔سٹاربرسٹ کے جامنی اور سیاہی مائل پھول خوش نما پھولوں کے درختوں سے لٹک رہے تھے۔ اسے دنیا بھر میں فوچسیا کی سب سے بڑی انواع میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہاں کوہائی کے درخت بھی ہیں جن کی ڈالوں پر کیلے کے گچھوں میں مانند پیلے رنگ کے پھول ہیں۔جیسے ہی ہم ماؤ وہاؤ کے گرد چلنے گئے تو چٹانوں میں بیٹھنے کی قدرتی جگہوں پر ہمیں چھوٹے سے پرندے لٹومٹس (پدڑی) اور منوقا نامی پھولوں، کے درمیان اڑتے لقا کبوتر دکھائی دیے۔بِیل برڈ (مترنم آواز میں گانے والے پرندے)، توت کے نشے میں مست نیوزی لینڈ کے جنگلوں میں پائے جانے والے کبوتر جنھیں کیورو ہمارے سروں کے انتہائی قریب سے گزرتے۔اب جزیرے پر پرندوں کی زندگی بھی پھل پھول رہی ہے۔ رائیلے نے فخر سے کہا کہ یہ تحفظ و بقا کے لیے کام کرنے والی ٹیم کی کوششوں سے ہوا ہے۔ ‘یہ شاندار ماحولیاتی نتیجہ ہے اور یہ بہتر ہی ہو گا۔’وقت کے ساتھ ایریتھوسہ کا تالاب پھر سے نیوزی لینڈ کی ان سرسبز جھاڑیوں کے پیچھے چھپ جائے گی بالکل ویسے ہی جیسے یہ یہاں یورپی افراد کی آمد سے پہلے تھی۔