جیمز ویب خلائی دوربین کی فوکسنگ مکمل، پہلی حتمی تصویر جاری
نیویارک۔مارچ.امریکی خلائی ادارے کی جیمز ویب خلائی دوربین ایک اہم سنگِ میل عبور کرتے ہوئے پہلی مرتبہ ایک ستارے پر فوکس کر کے حتمی تصویر تیار کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔انجینیئرز کا کہنا ہے کہ اْنھوں نے آزمائشی طور پر ایک ستارے کو فوکس کیا تھا اور تصویر کا معیار اْن کے مطابق اْن کی اْمیدوں سے بھی کہیں زیادہ ہے۔اس مرحلے تک پہنچنے کے لیے ویب کے مرکزی آئینے کے تمام 18 حصوں کو انسانی بال کی باریکی کی حد تک خود کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرنا تھا۔مگر ناسا کا کہنا ہے کہ اس دوربین کو مکمل طور پر فعال و قابلِ استعمال قرار دینے سے پہلے اب بھی بہت کام باقی ہے۔جیمز ویب کے آپٹیکل آلات تیار کرنے والی ٹیم کے سربراہ لی فینبرگ نے فوکس سے حاصل ہونے والی پہلی تصویر کو شاندار قرار دیا۔’آپ کو نہ صرف ستارہ اور اس سے بکھرنے والی روشنی کی نوکیں نظر آتی ہیں، بلکہ تصویر میں موجود دیگر ستارے بھی اچھی طرح فوکس ہیں جو کہ ہمیں امید تھی اور اس کے علاوہ پس منظر میں دیگر دلچسپ چیزیں بھی نظر آ رہی ہیں۔”ہم نے موصول ہونے والی تصاویر کا بہت تفصیلی تجزیہ کیا ہے اور ہم نے یہ پایا ہے کہ اس کی کارکردگی ہماری توقعات سے بہتر نہیں تو کم از کم ہماری توقعات جتنی ہی ہے۔’جیمز ویب کو ہبل خلائی دوربین کا جانشین قرار دیا گیا ہے۔ اسے 25 دسمبر 2021 کو فرینچ گیانا سے آریان 5 راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجا گیا تھا۔اس دوربین کا مقصد ہماری کائنات میں روشن ہونے والے اولین ستاروں کو دیکھنا ہے۔اس کے علاوہ یہ دوربین ہمارے نظامِ شمسی سے دور موجود سیاروں کا بھی جائزہ لے گی کہ آیا وہ قابلِ رہائش ہیں یا نہیں۔جیمز ویب کو اس مشن کے لیے ضروری باریک بینی اور حساسیت فراہم کرنے کے لیے اس میں ساڑھے چھ میٹر قطر کا مرکزی آئینہ نصب کیا گیا ہے۔لیکن یہ آئینہ اتنا بڑا تھا کہ اسے 18 حصوں میں تقسیم کیا گیا تاکہ یہ تہہ ہو کر راکٹ کے اندر سما جائے۔
چنانچہ لانچ کے بعد سے اب تک اہم کام یہ رہا ہے کہ آئینہ اور دیگر آلات کھلیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر کام کرنا شروع کریں۔ان میں سے تمام 18 آئینوں کو چھوٹی موٹرز کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح ترتیب دیا گیا تاکہ یہ ایک ہی آئینے کے طور پر کام کریں۔امریکی ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور میں قائم سپیس ٹیلیسکوپ سائنس انسٹیٹیوٹ کے مارشل پیرِن نے کہا کہ ‘تصاویر اب اس قدر فوکس ہیں جتنی کہ فزکس کے قوانین اجازت دیتے ہیں۔’اس آزمائشی تصویر کے لیے جو ستارہ منتخب کیا گیا، اس میں بذاتِ خود کوئی خاص بات نہیں بلکہ یہ ایک عام اور بے نام ستارہ ہے جس کی روشنی مناسب تھی۔جیمز ویب اس ستارے کو انفراریڈ میں دیکھ رہی ہے۔ انسانی آنکھ روشنی کی ان لہروں کو نہیں دیکھ سکتی۔ سرخ رنگ صرف کنٹراسٹ پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔یورپی خلائی ادارے کے مارک میکاگریئن نے بتایا کہ ستارے سے نکلتی ہوئی نوکیں جیمز ویب کے مرکزی آئینے کے ڈیزائن کی وجہ سے ہیں۔اْنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ان 18 آئینوں کی ساخت ایسی ہے کہ تیز روشنی والے ستاروں سے نوکیں نکلتی محسوس ہوتی ہیں۔ یہ سائنس کے لیے مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اس سے ویب کی لی گئی تصاویر کو ایک منفرد روپ ملے گا۔’اْنھوں نے کہا کہ ‘درحقیقت ان نوکوں کا اس قدر خستہ ہونا یہ دکھاتا ہے کہ آئینے ایک دوسرے سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔’اس تصویر کو اگر قریب سے دیکھا جائے تو پس منظر میں اربوں نوری سال کے فاصلے پر موجود کہکشائیں بھی نظر آتی ہیں۔یاد رہے کہ یہ آزمائشی تصویر ہے جو صرف انجینیئرنگ مقاصد کے لیے لی گئی ہے۔ ہبل دوربین گذشتہ 30 برسوں سے جو تصاویر ہمیں دکھا رہی ہے ویسی تصاویر ہمیں رواں گرمیوں سے پہلے نہیں ملیں گی۔ناسا کے گوڈارڈ سپیس فلائٹ سینٹر کی جین رِگبی نے کہا کہ ‘آج جو ہم تصاویر دیکھ رہے ہیں وہ اتنی ہی خستہ اور واضح ہیں جتنی کہ ہبل لے سکتی ہے، تاہم یہ روشنی کی اس ویولینتھ میں ہیں جو ہبل بالکل نہیں دیکھ سکتی۔ لہٰذا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان دیکھی کائنات اب ہماری نظروں کے سامنے ہے۔’جیمز ویب خلائی دوربین امریکہ، یورپ اور کینیڈا کے خلائی اداروں کا مشترکہ منصوبہ ہے۔