عراق میں امریکی قونصل خانے پر ایران سے میزائل حملے کیے گئے: امریکہ کا دعویٰ
اربل/واشنگٹن،مارچ۔عراقی خبر رساں ایجنسی کے مطابق عراق میں کردستان کے دارالحکومت اربل میں امریکی قونصل خانے پر متعدد راکٹ فائر کیے گئے ہیں۔دھماکوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر بھی پوسٹ کی گئی ہیں۔خبروں کے مطابق عراقی سکیورٹی فورسز نے بتایا کہ اربل میں امریکی قونصل خانے پر کم از کم چھ راکٹ فائر کیے گئے۔امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان نے بھی حملے کی مذمت کرتے ہوئے بتایا کہ عراق میں امریکی تنصیبات پر حملوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔پینٹاگون نے یہ بھی کہا کہ وہ ان حملوں کی تحقیقات کر رہا ہے۔خبروں کے مطابق ایک عراقی سکیورٹی اہلکار نے دعویٰ کیا کہ میزائل ایران کی طرف سے داغے گئے تھے۔ایک امریکی اہلکار نے بھی اے بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’میزائل ایران سے آئے تھے۔‘ دھماکوں پر ابتدائی ردعمل میں اربل کے گورنر امید خوشناف نے کہا کہ کئی راکٹ قونصل خانے کے قریب گرے ہیں اور یہ واضح نہیں ہے کہ نشانہ شہر کا ہوائی اڈہ تھا یا امریکی قونصل خانہ۔ادھر عراقی وزیرِ اعظم مسرور برزانی نے اربیل میں ہونے دھماکہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان بزدلانہ حملوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہیں۔اربل ہوائی اڈے پر امریکی فوجی اڈہ بھی ہے۔ کردستان کے وزیر صحت نے کہا ہے کہ ان حملوں میں کوئی زخمی نہیں ہوا۔چند روز قبل شام کے دارالحکومت دمشق کے قریب اسرائیلی حملے میں پاسداران انقلاب اسلامی کے دو ارکان مارے گئے تھے اور ایرانی حکومت نے کہا تھا کہ ’اس کا بدلہ لیا جائے گا۔‘اسلامی جمہوریہ ایران کی خبر رساں ایجنسی، ارنا نے بھی عراق میں شیعہ ملیشیا کے قریبی میڈیا آؤٹ لیٹ سبرین نیوز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ درجنوں دھماکوں نے اربیل شہر کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اربل ہوائی اڈے کے قریب 14 راکٹ امریکی اڈوں پر گرے ہیں۔عراقی شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’اربل اس طرح آگ کی زد میں ہے جیسے کرد عراقی نہیں ہیں۔‘یاد رہے کہ اس سے قبل سنہ 2020 میں امریکہ کی جانب سے فضائی حملے میں ایران کے سرکردہ عسکری کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایران نے جنوری 2020 میں دو امریکی فضائی اڈوں پر ایک درجن سے زائد بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کیا تھا۔سوشل میڈیا پر صارفین نے دھماکوں کی متعدد تصاویر پوسٹ کی ہیں۔سوشل نیٹ ورکس پر شائع ہونے والی تصاویر میں سے ایک یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ میزائل ایک ایسی جگہ سے فائر کیے گئے جو کچھ ماہرین کے مطابق جغرافیائی محل وقوع اور تصاویر میں موجود تفصیلات کی بنیاد پر شمال مغربی ایران میں تبریز کے قریبی جگہ ہے۔بی بی سی اس قیاس کی تردید یا تصدیق نہیں کر سکتا۔سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک اور تصویر اور ایرانی حکومت سے وابستہ خبروں کے ذرائع نے بتایا کہ میزائلوں کو عراقی کردستان سے ملحقہ ایرانی کردستان کے علاقے کے اوپر سے گزرتے دیکھا گیا ہے۔ایران کے سرکاری ذرائع نے ابھی تک اس حملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے تاہم ایرانی حکومت سے وابستہ کچھ میڈیا ذرائع نے اس بارے میں خبر دی ہے۔فارس نیوز ایجنسی جو پاسداران انقلاب اسلامی کی حامی سمجھی جاتی ہے، نے صابرین ٹیلیگرام چینل سے لمحہ بہ لمحہ ان میزائل حملوں کے بارے میں معلومات اور قیاس آرائیاں شائع کی ہیں۔صابری نیوز نے ایک سیکورٹی ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ اربیل میں اسرائیلی انٹیلی جنس سروس کے زیر ملکیت موساد کے دو جدید تربیتی مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔تسنیم نیوز ایجنسی سمیت پاسدارانِ انقلاب کے قریبی ذرائع ابلاغ نے اسی دعوے کو دہرایا ہے۔گذشتہ چند گھنٹوں میں اربیل پر حملے کے بعد عراقی وزیراعظم نے کہا کہ یہ عراقی عوام کی سلامتی پر حملہ ہے۔ عراقی حکومت کے ایک اہلکار کے مطابق عراقی سکیورٹی فورسز حملے کی تحقیقات کر رہی ہیں اور وہ کسی بھی خطرے کا مقابلہ کریں گی۔اس حملے کے بعد امریکی ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے متعدد اراکین نے ریپبلکن پارٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ اربیل پر اتوار کی صبح ہونے والے حملے کے تناظر میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر کسی بھی قسم کی بات چیت کو معطل کرے۔