بورس جانسن کا یوکرین پر روسی حملے کے بعد پابندیوں کے سخت پیکیج کا اعلان

لندن ،مارچ۔ بورس جانسن نے یوکرین پر روس کے حملے کے بعد پابندیوں کے پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس کو اب تک کے ’’سب سے بڑیاور شدید ترین‘‘ دھچکہ کا سامنا ہوگا۔ واضح رہے کہ یوکرین پر حملے کے بعد سے برطانیہ نے روس کے13سرکردہ اولیگارچز پر پابندیاں لگا دی ہیں۔ حکومت نے کہا کہ حملے کے بعد سے اب تک 220سے زیادہ افراد اور اداروں کو ’’ہماری پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ فارن، کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس کے مطابق مجموعی طور پر 500 سے زیادہ روسی افراد، ادارے اور تمام پابندیوں والی حکومتوں میں ان کے ذیلی ادارے اب برطانیہ کی پابندیوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ پابندیوں کی فہرست میں شامل کئے جانے والے تازہ ترین افراد میں آرسنل اور ایورٹن فٹ بال کلبوں سے تعلقات رکھنے والے روسی ارب پتی علیشیر عثمانوف شامل ہیں۔ سابق روسی نائب وزیراعظم ایگور شووالوف پر سفری پابندی عائد کر کے ان کے مکمل اثاثے بھی منجمد کر دیئے گئے ہیں۔ حکومت نے کہا کہ عثمانوف کی مجموعی دولت کا تخمینہ 18.4 بلین ڈالر (13.7 بلین پونڈز) ہے۔ حکومت نے کہا کہ اس نے روس کے خلاف ایک ’’سخت پیکیج‘‘ رکھا ہے، جس میں روسی مرکزی بینک کی منظوری اور روسی ریاست اور تمام روسی کمپنیوں پر برطانیہ میں فنڈز اکٹھا کرنے پر پابندی شامل ہے۔ حکومت نے کہا کہ ہر روسی بینک کے اثاثے بھی منجمد کر دیئے جائیں گے۔ امریکہ اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ ساتھ برطانیہ کا کہنا ہے کہ روس کے خلاف اقدامات تاریخ کی سب سے بڑی مالی پابندیاں ہیں۔ نائب وزیراعظم اور وزیرانصاف ڈومینک راب نے کہا کہ برطانیہ نے ’’ای یو سے زیادہ روسی بینکوں‘‘ بشمول سب سے بڑے روسی بینک ’’سبربینک‘‘ پر پابندی کی منظوری دی ہے۔ انہوں نے بی بی سی بریک فاسٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے یہ واضح کر دیا ہے اور ایسے اقدامات متعارف کرائے ہیں تاکہ تین ملین روسی کمپنیاں قرضہ اکٹھا نہ کر سکیں اور نہ ہی برطانیہ کی اسٹاک مارکیٹ میں درج ہو سکیں۔ دیگر اقدامات میں روس کے پرچم بردار جہاز ایرو فلوٹ کی برطانیہ میں لینڈنگ پر پابندی کے ساتھ ساتھ روسی نجی طیاروں پر پابندی بھی شامل ہے۔ یکم مارچ کو وزیر ٹرانسپورٹ گرانٹ شیپس نے کہا تھا کہ برطانیہ پہلا ملک بن گیا ہے جس نے ’’کسی بھی روسی کنکشن‘‘ والے بحری جہاز پر اپنی بندرگاہوں میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔ لیبر پارٹی کی چیئر وومن اینیلیز ڈوڈس نے اسکائی نیوز کو بتایا کہ برطانیہ پابندیوں کے حوالے سے ’’بہت زیادہ نرم‘‘ رہا ہے اور انہوں نے حکومت کے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا کہ وہ پیوٹن سے منسلک افراد کے لئے معاشی لیورز کے خلاف سختی سے کام کر رہی ہے۔ مسٹر راب نے اصرار کیا کہ برطانیہ ’’سست نہیں‘‘ ہے۔ انہوں نے بی بی سی بریک فاسٹ کو بتایا کہ برطانیہ کریملن سے منسلک رقم پر پابندیاں عائد کر رہا ہے۔ حکومتی ذرائع نے اعتراف کیا ہے کہ دولت مند اور قانونی اہداف کے خلاف قانونی طور پر درست مقدمات بنانے میں ’’ہفتے اور مہینے‘‘ لگ سکتے ہیں۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ وزیر خارجہ لز ٹرس نے حالیہ مہینوں میں پابندیوں کا سامنا کرنے والی ٹیموں کا حجم تین گنا بڑھا دیا ہے۔ وہ وزارتوں کے وزراء اور عہدیداروں پر مشتمل ایک اولیگرچ ٹاسک فورس قائم کریں گی، جس میں ہوم آفس، ٹریڑری اور نیشنل کرائم ایجنسی شامل ہیں تاکہ پابندیوں کو مربوط کیا جا سکے اور اہداف کے خلاف مقدمات قائم کئے جا سکیں۔ محترمہ ڈوڈس نے کہا کہ حکومت کو ’’ابھی کام کرنا ہیں‘‘ اور’’ہمارے پیر گھسیٹنا بند کرنا چاہئے‘‘۔ محترمہ ٹرس نے کہا ہے کہ اس کا مقصد "روسی معیشت کو اپاہج کرنا اور پیوٹن کی جنگی مشین کو کمزورکرنا ہے‘‘۔ انہوں نے بی بی سی ریڈیو 4 کے ٹوڈے پروگرام کو بتایا کہ لوگ یہ توقع کر سکتے ہیں کہ پیوٹن مایوس ہونے پر مزید وحشیانہ اقدامات کا سہارا لیں گے، یہ کہتے ہوئے کہ ہر ایک کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

 

Related Articles