اتاکاما ٹرینچ: آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ سمندر کی گہرائیوں میں آباد جادو نگری
لندن،فروری۔چلی کے ماہرینِ بحری سائنس اوسوالڈو اولوآ اور روبین ایسکریبانو برسوں تک یہ سوچتے رہے کہ چلی اور پیرو کے درمیان سمندر کے اندر اتاکاما ٹرینچ (گہری خدق یا کھائی) کا وہ منظر جسے کبھی کسی انسان نے دیکھا نہیں، کیسا ہو گا۔اتاکاما ٹرینچ سمندر کے اندر موجود ایک گہرا شگاف ہے جس کی گہرائی آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ ہے اور اب تک کسی انسان کی وہاں تک براہ راست رسائی نہیں ہوئی ہے۔اولوآ اور ایسکریبانو چلی میں یونیورسٹی آف کانسیپشن کے ’ملینیئم انسٹیٹیوٹ آف اوشیانوگرافی‘ کے بالترتیب ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر رہے ہیں۔ انھوں نے اس سمندری خندق کی سطح کا مطالعہ کرنے کے لیے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر انھوں نے پہلی بار اس گہری سمندری کھائی کے جغرافیائی محل وقوع کا نقشہ بنایا اور سنہ 2018 میں انھوں نے ایک مہم کے دوران وہاں کی کچھ تصاویر اور ویڈیوز تیار کیں اور پانی کے نمونے اور اس کی تہہ میں پانی کے اندر آباد عجیب و غریب مخلوقات کے ڈی این اے کے نمونے حاصل کیے۔ان کا کہنا ہے کہ اس وقت تک اس قدر زیادہ گہرائی میں جانا ان کے مطالعے میں شامل نہیں تھا کیونکہ اس گہرائی میں جانا اور مطلوبہ چیزوں کو دیکھنا، تکنیکی طور پر چاند پر جانے سے کم نہیں تھا۔بہر حال دونوں سائنسدان گذشتہ ہفتے امریکی مہم جْو وکٹر ویسکووو کے ساتھ اس ٹرینچ میں اْترے۔ واضح رہے کہ امریکی مہم جو وکٹر سنہ 2019 میں پانچ سمندروں کے پانچ گہرے ترین مقامات کا دورہ کرنے والے پہلے شخص بنے۔ انھوں نے دنیا کی گہری ترین سمندری کھائیوں میں اترنے کے لیے خصوصی طور پر تیار کردہ آبدوز کا استعمال کیا تھا۔اس طرح اولوآ، ایسکریبانو اور ویسکووو اس خندق میں اْترنے والے پہلے انسان بنے۔انھوں نے گہرائی تک دو دورے کیے۔ دونوں دوروں میں سے ہر ایک کل دس گھنٹوں پر محیط تھا اور اس کے لیے انھوں نے پوری تیاری بھی کی تھی، جس میں پانی میں جانے سے قبل والی رات جسم سے پانی کا اخراج، گرم ملبوسات پہننا شامل تھے۔دو الگ الگ دوروں کے دوران پہلے اولوآ پھر ایسکریبانو نے واسکووو کے ساتھ اس سمندری ٹرینچ کا سفر کیا۔ انھوں نے اس کے لیے بیضے کی شکل کی ایک چھوٹی ٹائٹینیم آبدوز کا استعمال کیا جسے فلوریڈا کی ٹرائٹن سبمرینز کمپنی نے تیار کیا تھا۔ اس پر مصنوعی فوم کی ایک حفاظتی تہہ چڑھائی گئی تھی۔ایان بینکس کے افسانوی ناولوں کی بنیاد پر اس آبدوز کا نام ’لمیٹنگ فیکٹر‘ دیا گیا جسے تکنیکی معجزہ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا اور یہ معمول کے مطابق سمندروں کے نام نہاد ہیڈل زون میں دریافت اور تحقیق کے لیے وقتا فوقتا اپنے دروازے کھولتی رہی ہے۔ واضح رہے کہ سمندر میں چھ ہزار میٹر کے بعد کے علاقے کو ہیڈل زون کہا جاتا ہے۔60 سالہ اولوآ نے بی بی سی منڈو کو بتایا: ‘یہ میری زندگی کا سب سے بڑا ایڈوینچر تھا اور سمندری سائنس کے محقق کے طور پر میرے کیریئر کا سب سے اونچا مقام تھا۔’ انھوں نے یہ باتیں غوطہ لگانے سے چند منٹ پہلے کہیں جب وہ ابھی پریشر ڈراپ مدر شپ پر ہی تھے۔اس آبدوز کا اندرونی حصہ گہرے بھورے رنگ کا ہے، اس میں دو آرام دہ کرسیاں لگی ہیں، اور اس میں آکسیجن ٹینک اور تمام الیکٹرانکس کے سوئچ لگے ہوئے ہیں۔ نیچے تین چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں ہیں جو سمندری فرش کا نظارہ کرنے کے لیے لگائی گئی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں: ’میں اس کی سبک رفتاری اور خاموشی سے متاثر ہوا، ایک ایسی خاموشی جہاں صرف سطح کے ساتھ مواصلات کی وجہ سے خلل پیدا ہو رہا تھا۔‘اس سمندری گہرائی میں اترنے سے ایک دن قبل جو نقشہ بنایا گیا تھا اس کے مطابق اس کی گہرائی 8,069 میٹر تھی اور وہاں تک پہنچنے میں انھیں ساڑھے تین گھنٹے کا وقت لگا۔ اولوآ کا خیال تھا کہ وہ اس سفر میں بور ہو جائیں گے لیکن ویسکووو کے ساتھ بات چیت کے درمیان وہ موسیقی سنتے رہے۔اس گہرائی کے سفر کے دوران اولوآ چلی کے گلوکار اور نغمہ نگار مینوئل گارشیا کا وہ دو گانہ بجایا جس میں مون لے فرتے نے ان کا ساتھ دیا تھا۔ انھوں نے ویسکووو کو اپنے بچوں کی تصاویر بھی دکھائیں جو کہ سویڈن میں قیام پزیر تھے۔بدلے میں ویسکووو نے دی ایگلس گروپ کا ٹکیلا سن رائز گیت بجایا اور انھوں نے یہ بھی بتایا کہ انھیں گہرائیوں میں اترنے کی تحریک کس طرح ملی۔ پھر، خوش گپیوں کے درمیان، انھوں نے فیصلہ کیا کہ جب وہ واپس زمین پر آئیں گے تو وہ ہسپانوی سیریز ایل سڈ دیکھیں گے اور انھوں نے ویسا ہی کیا۔گہرائیوں میں اترتے ہوئے انھوں نے کسی وقت موقع دیکھ کر اپنا اپنا نصف سینڈوچ کھایا۔ ویسکووو کا سینڈوچ ٹیونا کا تھا جبکہ اولوآ کا انڈے اور سلاد والا سینڈوچ تھا۔ایک بار جب وہ اس ٹرینچ کی سطح میں پہنچ گئے تو پھر ویسکووو نے اس آبدوز کو انتہائی چابکدستی کے ساتھ گھاٹیوں اور چٹانوں کے کنارے دوڑایا جہاں سے انھیں اس خطہ ارضی کی خصوصیات اور اہم معلومات حاصل ہونے والی تھیں۔اولوآ کہتے ہیں: ‘ہمارا سامنا بڑی تعداد میں سمندری ککڑیوں سے بھی ہوا جو کہ سمندری کھیرے کی ایک ایسی قسم ہے جو دوسری سمندری گھاٹیوں میں بھی پائی جاتی ہے، لیکن وہ یہاں کثرت میں موجود تھی۔’لیکن ایک مائیکرو بائیولوجسٹ کے طور پر اگر میں اس مہم میں کوئی چیز دیکھنا چاہتا تھا، تو وہ جرثوموں کی کالونیوں کو تلاش کرنا تھا۔ اور اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا ایک غیر معمولی چیز تھی کیونکہ اتاکاما ٹرینچ میں آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ گہرائی میں ان کی موجودگی کی پہلی بار تصدیق ہوئی۔64 سالہ روبن ایسکریبانو کے لیے، دو دن بعد بھی وہ تجربہ اتنا ہی دلچسپ تھا۔چونکہ ان کی دلچسپی حیوانات میں تھی اس لیے ان کے ساتھ ویسکووو صرف 7,330 میٹر تک نیچے اترے تاکہ انھیں زیادہ تعداد میں جاندار ملیں اور ان کی تلاش میں وہ سمندری گھاٹی کی مشرقی ڈھلوان پر رہے۔انھیں ایسی گہرائیوں میں زندہ رہنے والی غیر متوقع مخلوق ملی جیسا کہ ٹھنڈے پانی کے مرجان اور تنہا سٹار فش۔ انھیں اب تک مطالعہ کیے گئے کسی بھی دوسرے ٹرینچ (خندق) کے مقابلے میں یہاں زیادہ تعداد میں موجود جانوروں کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ ان میں پولی چیٹ کیڑے، ایمفی پوڈ کرسٹاشینز، اور دیگر ہیڈل مخلوق شامل تھیں جن کا ابھی مطالعہ ہونا باقی ہے۔ایسکریبانو جیسے ہی آبدوز سے باہر نکلے اور بحری جہاز کے عرشے پر قدم رکھا انھوں نے مذاق کرتے ہوئے کہا: ‘انھوں نے مجھے بتایا کہ ہمیں گڑھے کا مطالعہ کرنا ہے، لیکن انھوں نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ ہمیں وہاں جانا ہے۔‘’وہ کوئی جادو نگری تھی، جیسے کسی دوسرے سیارے پر اْترنا اور وہاں کی مخلوقات کے بنائے ہوئے ڈھانچے کو دیکھنا۔ میں نے تصور کیا کہ یہ چھوٹے چھوٹے شہر ہیں جو کیڑوں اور کرسٹیشین نے تہوں سے گزر گزر کر راستے بنائے ہیں۔‘اتاکاما ہیڈل مہم کے تحت اتاکاما ٹرینچ کے مختلف حصوں کے ہائی ریزولیوشن نقشے بھی بنائے گئے جو کہ 5,900 کلومیٹر لمبا، سمندر کی گہرائیوں میں سب سے طویل شگافوں میں سے ایک ہے۔ یہ ایک زبردست ڈھانچہ ہے جو اس جگہ پیدا ہوتا ہے جہاں نیزکا پلیٹ جنوبی امریکہ کے نیچے ڈوب جاتی ہے اور جو اس خطے میں آنے والے زلزلوں اور سونامیوں کا سبب بنتا ہے۔یہ نقشے گہرے سمندر میں پہلے مشاہداتی نظام کو قائم کرنے کے لیے مستقبل کے پراجیکٹ کے لیے سینسرز کو نصب کرنے کے لیے بہترین جگہ کا تعین کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ اور یہ بلاشبہ چلی کی سائنسی برادری کی جانب سے ایک بڑی کوشش کہی جا سکتی ہے۔اس کے تحت اس بات کا مطالعہ کیا جائے گا کہ کس طرح علاقے میں موجود طبی، جیو کیمیکل اور حیاتیاتی حالات وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں۔ یہ مستقبل میں اس بات کے لیے سائنسی بنیاد فراہم کرے گی کہ گہرے پانیوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کیسے پڑتے ہیں اور اس کی وجہ سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ آخر خطے میں بڑے زلزلوں اور سونامیوں کے اسباب کیا بنتے ہیں۔اولوآ نے کہا: ’ہمارے پاس چلی کی سمندری سائنس میں بڑی چھلانگ لگانے کے لیے منفرد موقع تھا اور مجھے یقین ہے کہ یہ کامیابی نئی نسلوں کو ترغیب دے گی۔‘دوسری جانب ویسکووو کا کہنا ہے کہ وہ ہر ماہ دسیوں ہزار مربع کلومیٹر سمندری حدود کی نقشہ سازی جاری رکھنے کی کوشش کے لیے پرعزم ہیں۔ یہ نقشہ سازی اس عالمی مہم کے تحت ہو رہی ہے جس کے تحت سنہ 2030 تک پورے دنیا کے سمندری فرش کی نقشہ سازی کو مکمل کرنا ہے۔