بائیڈن نے افغانستان کے منجمد اثاثے دو حصوں میں تقسیم کر دیے
واشنگٹن ڈی سی ،فروری.صدر جو بائیڈن نے جمعے کے روز ایک صدارتی حکم نامہ جاری کر دیا ہے جس کے تحت امریکی بنکوں میں منجمد افغانستان کے سات بلین ڈالر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے تاکہ افغانستان کے اندر انسانی بحران کے لیے رقم فراہم کی جا سکے اور نائن الیون کے دہشت گردی کے واقعے کے متاثرین کی مالی اعانت کے لیے بھی فنڈ قائم کیا جا سکے۔ امریکہ میں تجزیہ کار اس پیش رفت کو مثبت قرار دے رہے ہیں جب کہ طالبان نے اس اقدام کو افغانستان کے پیسے کی چوری قرار دیا ہے۔صدر بائیڈن کی طرف سے جمعے کو جاری کردہ حکم نامے میں امریکہ کے مالیاتی اداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ افغانستان کے عوام کی امداد اور بنیادی ضروریات کے لیے 3.5 ارب ڈالر تک رسائی میں سہولت فراہم کریں۔ باقی کے 3.5 بلین ڈالر امریکہ کے اندر موجود رہیں گے اور اس رقم کو نائن الیون کے دہشتگرد حملے کے امریکی متاثرین کی طرف سے دائر مقدے میں ادائیگیوں کے لیے استعمال کیا جائے گا۔افغانستان کے لیے بین الاقوامی فنڈنگ اور شورش زدہ ملک کے باہر کی دنیا میں زیادہ تر امریکہ کے اندر موجود اثاثے اس وقت منجمد کر دیے گئے تھے جب طالبان نے اگست میں کابل کا کنٹرول سنبھالا اور امریکی افواج کا انخلا عمل میں آیا تھا۔وائٹ ہاوس کا کہنا ہے کہ یہ صدارتی حکم نامہ افغانستان کے عوام تک فنڈ کی ترسیل کے لیے ایک راستہ فراہم کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے اور اس سے یہ رقوم ، بیان کے مطابق، ’’طالبان کے بد نیت عناصر کے ہاتھوں سے دور رکھی جائیں گی۔‘‘افغانستان میں کووڈ نائنٹین کے پھیلاؤ کے سبب خراب ہوتی ہوئی صورت حال، صحت کی سہولیات کے فقدان اور خشک سالی اور قحط کے سبب عوام کی پریشانی اور مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔صدارتی حکم نامے کے اجرا سے پہلے انتظامیہ کے دو عہدیداروں نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ نائین الیون کے دہشت گرد حملے کے متاثرین نے عدالت میں طالبان کے خلاف مقدمہ دائر کر رکھا ہے اور انتظامیہ نے افغانستان کے اثاثوں میں شامل ساڑھے تین ارب ڈالر کا فنڈ اس لیے قائم کیا ہے کہ عدالت کی طرف سے اگر معاوضے کی ادائیگی کا حکم آتا ہے تو اس کے لیے ایک فنڈ پہلے قائم ہو۔طالبان نے صدر بائیڈن کے اس حکم نامے کو افغان عوام کے پیسے کی چوری قرار دیا ہے، جب کہ امریکہ میں تھنک ٹینکس کے ساتھ وابستہ ماہرین فیصلے کو سراہ رہے ہیں کہ اس سے مشکلات سے دوچار افغانستان کے عوام کو فوری ریلیف دیا جا سکے گا۔طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیمی نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’’افغانستان کے عوام کا وہ پیسہ چوری کرنا جو امریکہ کے اندر منجمد تھا ایک انتہائی ہیچ قدم ہوگا، جو کسی بھی ملک کی اخلاقی اور انسانی معیار سے گری ہوئی حرکت کے مترادف ہے۔ فتح اور شکست انسانی تاریخ کا حصہ ہے۔ لیکن کسی بھی ملک کے لیے بڑی اورہتک آمیز بات وہ ہوتی ہے جب وہ عسکری لحاظ سے ہی نہیں بلکہ اخلاقی لحاظ سے بھی مات کھا جائے ‘‘۔
امریکی ماہرین کا ردعمل:مائیکل کوگل مین جو واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ولسن سنٹر کے ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور جنوبی ایشیا پروگرام کے ساتھ سینئر ایسوسی ایٹ کے طور پر وابستہ ہیں، نے صدر بائیڈن کی طرف سے افغانستان کے اثاثوں سے متعلق صدارتی حکم نامے پر وائس آف امریکہ کو اپنے تحریری ردعمل میں خبر کو خوش آئند قرار دیا ہے۔انھوں نے کہا ہے کہ اس حکم نامے کے بعد افغانستان کے لیے تقریباً چار ارب ڈالر فوری طور پر دستیاب ہوں گے جہاں انسانی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے اثاثوں کو تقسیم کرنا اور نائن الیون میں دہشت گردی کے شکار خاندانوں کے لیے فنڈ کے قیام کا کم ہی جواز ہے۔کوگلمین کے بقول دہشت گردی کے شکار خاندان مدد کے مستحق ہیں لیکن یہ رقم اس پیسے سے نہیں آنی چاہیے جو افغان عوام ، افغانستان کے عام شہریوں کا ہے نہ کہ طالبان حکومت کا۔کوگلمین نے کہا کہ طالبان کو اس اقدام سے اپنے فتح کے پروپیگنڈا کا موقع مل جائے گا جس میں وہ امریکہ کو بے حس گردانیں گے اور کہیں گے کہ امریکہ کو افغانستان کے وسائل واپس افغانستان بھجوانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے جس کی افغان عوام کو اشد ضرورت ہے۔جنوبی ایشیا کے امور کے تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ امریکہ نے وہ ہتھیار بھی ضائع کر دیا ہے جو وہ طالبان پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کر سکتا تھا۔’’ کیونکہ امریکہ نے ہمیشہ کہا ہے کہ یہ اثاثے افغانستان کے لیے دستیاب ہوں گے بشرطیکہ طالبان انسانی حقوق اور جامع حکومت پر توجہ دیں۔ لیکن اب جب کہ یہ اثاثے دیگر مقاصد کے لیے استعمال ہو گئے ہیں تو امریکہ نے یہ ہتھیار ضائع کر دیا ہے‘‘۔واشنگٹن کے کیٹو انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ماہر ڈاکٹر سحر خان صدر بائیڈن کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہتی ہیں کہ انتظامیہ ایک درست قدم اٹھارہی ہے۔ ان کے بقول، یہ بات قابل ذکر ہے کہ پیسہ طالبان کو نہیں جارہا بلکہ ملک کے بینکنگ نظام میں جارہا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ اگر عالمی برادری اور خاص طور پر امریکہ افغانستان کو مکمل تباہی سے بچانا چاہتے ہیں تو انھیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ملک میں جو ادارے قائم ہیں وہ کام کرتیرہیں۔ انھوں نیکہا کہ یہ اثاثے افغانستان کے مرکزی بینک سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ خوراک، طبی سامان اور دیگر امدادی سامان کیلیے استعمال ہوں گے جن کی افغانوں کو اشد ضرورت ہے۔غیر سرکاری تنظیم ریفیوجیز انٹرنیشنل نے اس پیش رفت پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ نائن الیون کے دہشتگرد حملے کے متاثرین کو طالبان سے معاوضہ ملنا چاہیے لیکن بائیڈن انتظامیہ نے جو بندوبست تجویز کیا ہے وہ بقول ان کے دانشمندانہ نہیں ہے۔ اس سے افغان عوام کی مشکلات میں مزید اضافے کا خطرہ ہے۔تنظیم کے مطابق اس تقسیم سے افغانستان کا مالی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتا ہے جس سے افغان عوام کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ ایسا بندوبست کیا جانا چاہیے تھا جس سے افغانستان کا بینکنگ کا نظام طالبان کے کنٹرول میں آئے بغیر فعال ہو جاتا اور آزادانہ طور پر کام کر سکتا۔