حجاب پہننے والی مسلمان فٹ بال کھلاڑیوں کی فرانسیسی وزیر کی حمایت
پیرس، فروری ۔فرانس کی وزیر برائے صنفی مساوات نے مسلمان خواتین فٹبالرز کی حمایت کی ہے جو میدان میں سر پر حجاب لینے والی کھلاڑیوں پر عائد پابندی کو ختم کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ڈان میں شائع ہونے والی غیر ملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق فرانسیسی فٹ بال فیڈریشن کے مقررہ قوانین فی الحال مسابقتی میچوں میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کو مذہبی علامات جیسے کہ مسلمانوں کے سر کے حجاب یا یہودی کپا (ایک طرح کی ٹوپی) پہننے سے روکتے ہیں۔’لیس حجابیس’ کے نام سے معروف خواتین کے اجتماع نے نومبر میں قوانین کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا تھا اور یہ دعویٰ کیا کہ قوانین امتیازی ہیں اور ان کے مذہب پر عمل کرنے کے حق کی خلاف ورزی ہیں۔اس ضمن میں صنفی مساوات کی وزیر ایلزبتھ مورینو نے ایک ٹیلیویژن چینل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘قانون کہتا ہے کہ یہ نوجوان خواتین سر پر حجاب پہن کر فٹ بال کھیل سکتی ہیں، آج فٹ بال کی پچز پر سر کے حجاب کی ممانعت نہیں ہے، میں چاہتی ہوں کہ قانون کا احترام کیا جائے’۔خیال رہے کہ فرانسیسی صدارتی انتخابات سے دو ماہ قبل یہ مسئلہ ایک ایسے ملک میں ایک موضوع بحث بن گیا ہے جو سیکولرازم کی ایک سخت شکل کو برقرار رکھتا ہے اور جس کا مقصد ریاست اور مذہب کو الگ کرنا ہے۔فرانسیسی سینیٹ، جس پر دائیں بازو کی ریپبلکن پارٹی کا غلبہ ہے، نے جنوری میں ایک قانون تجویز کیا تھا جس کے تحت تمام مسابقتی کھیلوں میں واضح مذہبی علامتوں کے پہننے پر پابندی ہو گی۔مجوزہ قانون کو ایوان زیریں میں مسترد کر دیا گیا جہاں صدر ایمانوئل میکرون کی سینٹرسٹ ریپبلک آن دی موو پارٹی اور اتحادیوں کو اکثریت حاصل ہے۔سیکولرازم کے حوالے سے فرانس کے قوانین تمام شہریوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتے ہیں اور عوامی مقامات پر مذہبی علامتوں کے پہننے پر پابندی لگانے کی کوئی دفعات ان میں شامل نہیں۔سوائے پورے چہرے کو ڈھانپنے کے جو 2010 میں غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔