شراب پرسکون کرنے کے لیے ہوتی ہے: حقیقت یا فسانہ؟

لندن،فروری۔ایک طویل اور دباؤ اور تھکان والے دن کے بعد، میں اکثر خود کو بیئر یا شراب کے گلاس کے ساتھ بیٹھا ہوا پاتا ہوں۔اس طرح کی چیزیں اس بات کا اشارہ ہیں کہ اس دن کا کام ختم ہو گیا ہے اور اب تفریح اور آرام کا وقت آ گیا ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ پینے کا یہ طریقہ کارگر نہیں ہوتا۔کیونکہ باقاعدگی سے (اور ضرورت سے زیادہ) شراب نوشی ڈپریشن اور خراب نیند کا باعث ہو سکتی ہے۔اور تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ طویل مدتی بے چینی کی سطح کو بھی بڑھا سکتا ہے۔ان سب کے باوجود یہ کہنا کہ الکوحل فرحت بخش اور سکون دینے والی شے ہے تو یہ ایک زبردست فسانہ ہی ہو سکتا ہے۔اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ بہت سے لوگوں نیکووڈ 19 کی وبا کے دوران سکون حاصل کرنے کی کوشش میں زیادہ پینا شروع کر دیا تھا۔الکوحل کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے اس بات پر کچھ روشنی پڑتی ہے کہ آخر اس فسانے کو مقبولیت کیوں ملی۔
دوا کے مقاصد کے لیے استعمال؟:پوری انسانی تاریخ میں الکوحل کو اکثر دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اسے کئی مفید خصوصیات کا حامل سمجھا جاتا ہے جس میں اس کا جراثیم کش اور بے ہوشی کرنے والا مادہ ہونا بھی شامل ہے۔میں نے مطالعہ کیا ہے کہ کس طرح 19ویں اور 20ویں صدی کے اوائل کے سیاحوں نے اس مشروب کا استعمال کیا۔مسافروں کے رویے کے مشاہدے سے شراب کی سائنسی اور طبی تفہیم پر روشنی پڑتی ہے۔کیونکہ کلینیکل ٹرائلز سے پہلے کے دور میں طبی مصنفین نے مختلف کھانوں اور مشروبات کے صحت پر ہونے والے اثرات کے بارے میں شواہد اکٹھا کرنے کے لیے سیاحوں کی داستانوں کی طرف رجوع کیا۔لہذا ان کی تحریریں شراب اور صحت کے بارے میں ماضی کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں ہماری مدد کر سکتی ہیں۔درحقیقت بہت سے وکٹورین عہد کے آرکٹک (قطب شمالی) ایکسپلورر سلیڈنگ کے ایک طویل دن کے اختتام پر جسم کو ‘گرم رکھنے کے لیے’ رم کا ایک گلاس پیا کرتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اس سے انھیں سونے، آرام کرنے اور تناؤ کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔اس کے علاوہ مشرقی افریقہ میں برطانوی سیاح دن بھر کے سفر کے اختتام پر اکثر تھوڑی مقدار میں شراب پیتے تھے۔انھوں نے اسے ایک مفید ‘دوا’ سمجھا جو ان کے خیال میں انھیں بخار کے اثرات اور سفر کے جذباتی دباؤ دونوں سے نمٹنے میں معاون تھی۔سنہ 1883 میں شائع ہونے والی ایک سفری مشورے کی گائیڈ میں ایک برطانوی فوجی سرجن جارج ڈوبسن نے مشورہ دیا کہ گرم موسم میں "مسلسل مشقت والے کام کرنے والوں جیسے کہ کھلاڑیوں اور مسافروں کے لیے شراب کے کبھی کبھار اور سمجھدار استعمال کی مدد کے بغیر زیادہ دیر تک اسے نہیں کیا جا سکتا ہے۔
صحت اور توازن:ابتدائی طور پر اور کم مقدار میں شراب ایک محرک کے طور پر کام کرتا ہے، کیونکہ یہ دل کی دھڑکن کو تیز کرتا ہے، اور زیادہ توانائی دیتا ہے۔تاہم، یہ جلد ہی ڈپریشن پیدا کرنے والے کے طور پر کام کرتا ہے، مرکزی اعصابی نظام کے عمل کو روکتا ہے، اس طرح سوچنے اور رد عمل کی حرکت کو سست کر دیتا ہے۔یہ صحت کے اثرات 19ویں صدی کے اوائل میں طب میں خاص طور پر اہم تھے کیونکہ کچھ طبی ماہرین جسم کو نظریاتی طور پر ایک ایسے نظام کے طور پر دیکھتے تھے جسے توازن میں رکھا جانا چاہیے۔اور محرکات یا ڈپریشن کو توازن بحال کرنے کے ایک اہم طریقہ کے طور پر دیکھا جاتا تھا بطور خاص اس صورت میں جب کوئی بیمار محسوس کر رہا ہو۔وقت گزرنے کے ساتھ، یہ نظریات سائنسدانوں اور معالجین میں تیزی سے غیر مقبول ہوتے گئے، اور ان کی جگہ بیماری کے نظریات نے لے لی جو انفیکشن کی مزید مخصوص وجوہات کا تعین کرنے کی کوشش کرتے تھے۔مثال کے طور پر پہلی بار سنہ 1861 میں تجویز کردہ ‘جرم تھیوری’ نے ظاہر کیا کہ بہت سی بیماریاں جرثوموں کی وجہ سے ہوتی ہیں نہ کہ موسم کی وجہ سے۔اسی طرح برطانوی ڈاکٹروں کی ملیریا کے پھیلاؤ میں مچھروں کے کردار میں دلچسپی بڑھ رہی تھی۔اسی قسم کی پیشرفت نے نئے طبی نقطہ نظر کو جنم دیا اور گرم علاقوں میں عام بیماریوں کو روکنے اور علاج کرنے کی نئی کوشش ہوئی۔اور یہ کہا گیا کہ الکوحل کو دوسری دوائیوں میں ملا کر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
شراب نوشی پر تنقید:لیکن بیماری کے بارے میں صرف بدلتے طبی رویے ہی مہمات کے دوران شراب نوشی میں کمی باعث نہیں بنے۔مہم جوؤں کی شراب نوشی پر بڑھتی ہوئی تنقید بھی شراب کے متعلق طبی اور سماجی رویوں میں تبدیلی کا نتیجہ تھی۔اس تبدیلی کی بڑی وجہ زیادہ تر تحمل کی تحریک کی وجہ سے تھی جو کہ ایوینجلیکل مسیحیت سے منسلک ایک تحریک تھی جس نے شراب کی فروخت کی حوصلہ شکنی (اور بعض اوقات مکمل پابندی) کی کوشش کی۔یہاں تک کہ جو اعتدال پسند الکوحل کے استعمال کو قابل قبول سمجھتے تھے انھیں بھی یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ یہ واقعی شدید موسمی حالات میں زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔مثال کے طور پر نیشنل آرکٹک مہم (1875-1876) میں رم کو راشن کے طور پر تقسیم کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور یہ کہا گیا کہ یہ اسکروی (ایک بیماری) کے پھیلنے کا باعث ہے کیونکہ یہ پہلے پہل مبینہ طور پر زیادہ شراب پینے والوں میں ظاہر ہوا۔اس طرح کی تنقیدوں کا مطلب یہ تھا کہ ایکسپلورر تیزی سے اس بات پر زور دینے لگے کہ وہ اعتدال کے ساتھ اور ‘دوا’ کے طور پر شراب نوشی کر رہے تھے۔وہ اکثر ایسا صرف مخصوص قسم کے الکوحل والے مشروبات پی کر کرتے تھے، جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ان میں طبی خصوصیات زیادہ ہیں۔عام طور پر اس کا مطلب برانڈی، شیمپین، یا مخصوص قسم کی دوسری شراب ہے۔لیکن ڈاکٹروں کے درمیان اس بات پر اختلاف تھا کہ کون سی مشروب صحت بخش ہیں۔درحقیقت ان میں سے بہت سے مشروبات کو بغیر کسی وجہ کے ادویاتی سمجھا جاتا تھا کیونکہ وہ مہنگے تھے۔آج اس طرح کے مشروبات کو شاذ و نادر ہی دوا سمجھا جاتا ہے، لیکن الکوحل کے طبی اثرات کی بات ابھی تک مسترد نہیں ہوئی ہے۔اور اپنے وکٹورین ہم منصبوں کی طرح بہت سے معاصر ڈاکٹر یہ مشورہ دیتے ہیں کہ مشروبات کی کچھ اقسام دوسروں کے مقابلے صحت مند ہیں۔
محرکات الکوحل ہے یا کیفین؟:جیسا کہ میرے ساتھی کم واکر اور ہماری حالیہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ 19ویں صدی کے اواخر اور 20ویں صدی کے اوائل تک محرک (بشمول الکوحل) افریقہ میں یورپی سیاحوں کے لیے ایک مقبول دوا رہی۔جزوی طور پر اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ نسبتاً سستے تھے، انتظام کرنے میں آسان تھے، اور پینے والے کے دماغ اور جسم پر نمایاں اثرات مرتب کرتے تھے۔ان کے بارے میں یہ بھی خیال ظاہر کیا جاتا تھا کہ وہ ایک قسم کا علاج ہیں کیونکہ ان کا یہ خیال تھا کہ گرم آب و ہوا جسمانی طور پر نقصان دہ اور نفسیاتی طور پر افسردہ کرنے والی ہوتی ہے۔اسی 1883 کی سفری گائیڈ میں ڈوبسن نے شراب پینے کے اپنے نسخے کی حمایت میں ‘موسم کے ڈیپریس کرنے والے اثرات’ کی شکایت کی۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ مسافروں نے الکوحل والے مشروبات کو ان اثرات سے لڑنے میں مدد کے لیے مفید محرک کے طور پر دیکھا۔یہاں تک کہ وہ لوگ جو مہم جوئی میں پینے کے مخالف ہیں وہ بھی محرک مشروبات کو اہم سمجھتے تھے، لیکن شراب کے بجائے ‘ایک کپ کافی’ کی تجویز پیش کرتے ہیں۔پچھلے 150 سالوں میں مشروبات کی طبی سمجھ میں کافی تبدیلی آئی ہے۔لیکن اس بات کا مطالعہ کرنا کہ وکٹورین اور ایڈوارڈین عہد کے سیاحوں نے الکوحل کو کس طرح لیا یہ اس کے تسلسل کو ظاہر کرتا ہے۔بہر حال ماضی کی طرح آج بھی شراب نوشی کا تعین نہ صرف اس کے طبی فوائد کے علم سے ہوتا ہے، بلکہ مختلف مشروبات کے بارے میں ثقافتی رویوں اور ان سے منسلک سیٹنگس سے بھی ہوتا جہاں ہم پیتے ہیں۔

 

Related Articles