افغانستان: طالبان کا اعلیٰ تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان، خواتین کی تعلیم پر ابہام برقرار
کابل ،فروری۔افغانستان میں طالبان کی حکومت کے ہائیر ایجوکیشن کے وزیر عبدالباقی حقانی کا کہنا ہے کہ ملک کے گرم علاقوں میں سرکاری یونیورسٹیاں دو فروری سے دوبارہ کھولی جارہی ہیں جب کہ دارالحکومت کابل سمیت سرد علاقوں میں یونیورسٹیاں 27 مارچ سے کام شروع کریں گی۔یونیورسٹیز کھولنے سے متعلق اپنے تازہ ویڈیو پیغام میں طالبان وزیر نے یہ واضح نہیں کیا ہے کہ یونیورسٹیاں کھلنے کے بعد ان میں زیرِ تعلیم طالبات بھی دوبارہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گی یا نہیں۔اپنے بیان میں عبدالباقی حقانی کا مزید کہنا تھا کہ یونیورسٹیوں کے آغاز کے بعد تین ہفتوں تک تدریس ہو گی اور آخری سمسٹر کے امتحانات سات جولائی کو شروع ہو کر مہینے کے آخر تک جاری رہیں گے۔یاد رہے کہ اگست میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان میں حکومتی یونیورسٹیاں تا حال بند ہیں۔ طالبان کے اعلیٰ تعلیم کے وزیر عبدالباقی حقانی کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنیآیا ہے جب حالیہ اوسلو کانفرنس کے موقع پر مغربی ممالک کے نمائندوں نے افغانستان کو دی جانے والی امداد کو ملک میں خواتین کے حقوق اور تعلیم، آزادیٔ اظہار اور انسانی حقوق کی فراہمی سے مشروط کیا تھا۔افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان نے گزشتہ برس ستمبر کے وسط میں نجی جامعات کھولنے کی اجازت دی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی کلاس روم میں مر د و خواتین کے درمیان پردہ حائل کرنے اور خواتین کے لباس سے متعلق بھی پابندیاں عائد کی تھیں۔اسی طرح طالبان کی حکومت نے گزشتہ برس ستمبر میں لڑکوں کے لیے سیکنڈری تعلیم کے ادارے کھول دیے تھے لیکن لڑکیوں کے اسکول نہیں کھولے گئے تھے۔ اس پر طالبان کی وزارتِ تعلیم نے وسائل کی کمی کو لڑکیوں کے اسکول نہ کھولنے کی وجہ قرار دیا تھا۔بعدازں افغانستان کے بعض حصوں میں لڑکیوں کے تعلیمی ادارے کھولنے کی اجازت دے دی گئی تھی لیکن تاحال کئی صوبوں میں لڑکیوں کی تعلیمی اداروں میں تدریس شروع نہیں ہوسکی ہے۔طالبان کے وزیرِ تعلیم کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ مارچ کے مہینے میں افغانستان میں نئے تعلیمی سال کیآغاز کے ساتھ ہی طلبہ و طالبات کے تمام اسکول کھولے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں نیا تعلیمی سال 21 مارچ سے شروع ہوتا ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے طالبان قیادت کے ساتھ ساتھ عالمی برادری بھی افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔افغان نیوز ایجنسی پڑواک کے سابق سینئر مدیر جاوید حمیم کاکڑ کا کہنا ہے کہ خواتین کی تعلیم اور حقوق پر ہونے والی سیاست کا خمیازہ افغان عوام بھگت رہے ہیں۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران نہ صرف طلبہ کا قیمتی وقت ضائع ہوا بلکہ اساتذہ کی تنخواہیں بند ہیں اور انہیں شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے۔جاوید حمیم کاکڑ طالبان کے یونیورسٹیز کھولنے کے فیصلے کو درست اقدام کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن ان کے نزدیک طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق ابہام کو برقرار رکھا ہے جس کی وضاحت ہونی چاہیے۔ افغانستان کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے اور ان کی تعلیم کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ان کا کہنا تھا کہ طالبان جب عالمی برادری سے امداد کے خواہاں ہیں تو انہیں تعلیم کے بارے میں عالمی برادری کے مطالبات کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اسلام میں بھی تعلیم مرد اور عورت دونوں پر فرض ہے۔گزشتہ برس ستمبر میں ایک پریس کانفرنس میں طالبان کے وزیرِ تعلیم نے کہا تھا کہ مخلوط طرزِ تعلیم اسلام اور افغانستان کی قومی روایات سے متصادم ہے۔عام طور پر خواتین کو تعلیم کی فراہمی سے متعلق طالبان وسائل کی کمی کے ساتھ ساتھ مخلوط طرزِ تعلیم کے متبادل نظام لانے کا عذر بھی پیش کرتے ہیں۔ اس بارے میں جاوید حمیم کاکڑ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں پہلے بھی طلبہ و طالبات کی کلاسیں الگ الگ تھیں۔ یونیورسٹی کی سطح پر اگر کہیں مخلوط کلاسیں تھیں بھی تو وہاں بھی خواتین نے خود کو مکمل طور پر ڈھانپا ہوتا تھا۔ موجودہ حالات میں طالبان تعلیم کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
’زمینی حقائق بیانات سے مختلف ہیں‘:کابل میں مقیم سیاسی مبصر اور یونیورسٹی لیکچرر نصرت اللہ حقپال کا کہنا ہے کہ افغانستان کا تعلیمی نظام کرونا وبا کے پھیلنے کے بعد سے زوال کا شکار ہے۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران اسکول اور یونیورسٹیوں میں برائے نام تدریس ہوسکی ہے۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے تا حال افغانستان کی نوجوان نسل تعلیم سے متعلق شدید مشکلات کا شکار ہے۔ اور اب جب کہ طالبان نے یونیورسٹیاں کھولنے کا اعلان کیا ہے تو یہ واضح نہیں ہے کہ جامعات میں تعلیم کا معیار کیسا ہوگا۔ کیوں کہ انتظامی سطح پر کئی مسائل ہیں اور اساتذہ کو ابھی تک تنخواہیں بھی نہیں ملی ہیں۔نصرت حقپال کا مزید کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں کے کھولنے کے لیے طالبان کے اندر سے بھی قیادت پر کافی دباؤ تھا۔ طالبان نے یونیورسٹیز کھولنے کا اعلان کر دیا ہے لیکن زمینی صورت ِحال مختلف ہے۔ بچے اسکول جاتے ہیں لیکن وہاں اساتذہ کی کمی ہے۔ بچوں کے پاس پڑھنے کے لیے کتابیں نہیں ہیں۔
’آنکھیں بند کرکے یقین نہیں کیا جاسکتا‘:دوسری جانب ماہرین طالبان کے تعلیمی ادارے کھولنے کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات رکھتے ہیں۔کابل میں مقیم خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی مرسل سازگر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جب تک وہ خود طالبات کو یونیورسٹیوں میں دیکھ نہ لیں تب تک وہ طالبان کے بیانات پر آنکھیں بند کرکے یقین نہیں کر سکتیں۔ان کا مزید کہنا تھا طالبان کا بیان بھی مبہم ہے۔ ابھی تک ان کی طرف سے خواتین کی بہتری سے متعلق کوئی بھی مثبت بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ان کے بقول اگر ان کی تاریخ دیکھی جائے تو زیادہ تر افغان طالبان کے بیانات حقائق کے برعکس ہوتے ہیں۔طالبان کی عبوری حکومت کے اہل کار اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں کہ وہ خواتین کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ ان کا مؤقف یہ رہا ہے کہ معاشی مسائل اور تعلیمی اداروں کے ماحول کی اسلامی تعلیمات سے عدم مطابقت لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم تک رسائی کے لیے اجازت دینے میں رکاوٹ کا باعث ہیں۔عالمی سطح پر بھی افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کے حقوق سے متعلق طالبان حکومت کے اقدامات پر تحفظات پائے جاتے ہیں۔اتوار کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اپنے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ افغانستان کی خواتین اور لڑکیوں کو ایک بار پھر تعلیم، روزگار اور انصاف کے مساوی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر طالبان عالمی برادری کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو انھیں ہر عورت اور لڑکی کے بنیادی انسانی حقوق کو تسلیم کرنا ہوگا۔