شام: الحسکہ جیل پر اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کا حملہ

دمشق،جنوری۔انسانی حقوق کے ایک نگراں ادارے کی اطلاعات کے مطابق داعش کے حملے کے بعد کچھ قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ تاہم جس کرد فورسز کے زیر انتظام اس جیل کا نظم و نسق ہے اس کا کہنا ہے کہ فرار کی کوشش ناکام بنادی گئی۔شام میں کردوں کے زیر قیادت سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ شدت پسند اسلامک اسٹیٹ گروپ کے جنگجوؤں نے اپنے گروپ سے وابستہ جہادیوں کو رہا کرانے کے مقصد سے کرد فورسز کے زیر انتظام جیل الحسکہ پر حملہ کیا تھا، جسے ناکام بنا دیا گیا۔ برطانیہ میں مقیم انسانی حقوق کی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ اس حملے کی وجہ سے، کئی قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن ایس ڈی ایف نے اپنے بیان میں قیدیوں کے فرار ہونے کا ذکر تک نہیں کیا۔امریکی حمایت یافتہ فورسز ایس ڈی ایف کا کہنا ہے کہ داعش سے وابستہ سلیپر سیل…کے لوگ آس پاس کے علاقوں سے اندر داخل میں کامیاب ہو گئے، جن کی ہماری داخلی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔ ایس ڈی ایف کا یہ بھی کہنا ہے کہ جیل سے فرار ہونے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا گیا۔یہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا ہے جب غوایرن جیل کے داخلی دروازے سے ٹکرانے والی ایک کار سے بم دھماکہ کیا گیا۔ غوایرن جیل شمال مشرقی شام میں کرد حکام کے زیر کنٹرول نیم خود مختار علاقے میں واقع ہے، جس میں داعش سے وابستہ جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد قید ہے۔بعض غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ایس ڈی ایف کے زیر کنٹرول جیلوں سے فرار کی کوشش کا جو نیا سلسلہ شروع ہوا، اس کے لیے حملوں سے قبل جیل کے اندر بغاوت بھی ہوئی، جس میں بعض قیدی ہلاک بھی ہو گئے۔ان جیلوں کا نظم و نسق سنبھالنے والے کرد حکام کے مطابق، ان کی ایسی متعدد جیلوں میں 50 سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ قید ہیں۔ ان جیلوں میں 12,000 سے بھی زیادہ اسلامک اسٹیٹ کے مشتبہ افراد قید ہیں۔ ان قیدیوں کا تعلق فرانس سے لے کر تیونس جیسے ممالک سے ہے تاہم ان ممالک کے حکام عوامی رد عمل کے خوف کی وجہ سے انہیں واپس لینے سے گریزاں ہیں۔بعض قیدیوں کے رشتے داروں کا یہ بھی الزام ہے ان جیلوں میں ایسے کم عمر بچے اور بہت سے دیگر افراد بھی قید ہیں جنہیں یا تو بہت ہی معمولی الزامات کے تحت یا پھر ایس ڈی ایف فورسز کی بھرتی کی پالیسی کی نا فرمانی کرنے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ایک وقت تھا کہ جب انتہا پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا داعش گروپ نے شام اور عراق کے وسیع تر علاقوں کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا، لیکن پھر امریکا اور دیگر ممالک کی حمایت یافتہ دونوں ممالک کی کرد فورسز کے ساتھ ایک طویل جنگ کے بعد اس کے بیشتر علاقے اس کے ہاتھ سے نکل گئے۔اس کوشش میں جرمن فوج نے بھی تربیت فراہم کرنے کے ساتھ ہی دیگر غیر جنگی مدد کی تھی۔ لیکن جرمنی کی مدد صرف عراق کے کردستان علاقے تک ہی محدود تھی، شام میں نہیں۔اس لڑائی کے نتیجے میں اسلامک اسٹیٹ کے نیٹ ورک سے وابستہ باقی جنگجوؤں کو ان کے صحرائی ٹھکانوں کی جانب پیچھے دھکیل دیا گیا تھا۔ تاہم اب وہ وہاں سے بھی شامی حکومت اور اتحادی افواج کو ہراساں کرنے کے لیے حملہ کرتے رہتے ہیں۔

Related Articles