یوکرین تنازع: روسی ہم منصب کے ساتھ ملاقات میں فوری نتائج کی توقع نہیں: بلنکن
برلن،جنوری۔امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے متنبہ کیا ہے کہ اگر روس اپنی افواج یوکرین بھیجتا ہے تو امریکہ اور اس کے اتحادی اس کا بھرپور انداز سے فوری اور شدید جواب دیں گے۔بلنکن نے یہ بیان جمعرات کے روز برلن میں ایک اخباری کانفرنس کے دوران دیا۔ بظاہر انھوں نے یہ بیان اس تاثر کی نفی کے لیے دیا کہ اس معاملے پرامریکہ اور نیٹو اتحادیوں کا اصل مؤقف کیا ہے۔ ساتھ ہی اس سے مراد یہ لی جارہی ہے کہ اس جملے کی وضاحت سامنیلانا مقصود تھا جس میں صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ اگر روس معمولی نوعیت کی دراندازی کرتا ہے تو شاید اس کا جواب اتنا شدید نہ ہو۔اپنے جرمن ہم منصب کے ہمراہ اخباری کانفرنس کرتے ہوئے، بلنکن نے کہا کہ اگر روسی افواج یوکرین کی سرحد پار کرتی ہیں اور یوکرین کے خلاف نئی جارحیت کی کارروائی میں ملوث ہوتی ہیں، تو امریکہ ، ہمارے اتحادی اور شراکت دار مل کر اس کا فوری اور بھرپور جواب دیں گے ۔بعدازاں، بلنکن نے روس پر الزام لگایا کہ وہ مروجہ عالمی ضابطوں کی بنیادوں کے لیے خطرے کا باعث بن رہا ہے، چونکہ روس نے یوکرین کی سرحد کے قریب اندازاً ایک لاکھ فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر روس حملے کی جسارت کرتا ہے تو اسے متحد اور شدید عالمی رد عمل کا سامنا کرنا ہوگا۔بلنکن جمعے کے روز جنیوا میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف سے ملاقات کرنے والے ہیں، جس کا مقصد کشیدگی کے ماحول میں کمی لانا ہے، جس بات کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔ بلنکن نے یہ واضح انتباہ برلن کے شہر میں دیا، جو سرد جنگ کے دور میں مشرقی اور مغربی جرمنی میں بٹا ہوا تھا۔بلنکن نے کہا کہ جن معاملات کا ہمیں سامنا ہے وہ مشکل نوعیت کے ہیں اور ان کا فوری تصفیہ ممکن نہیں لگتا۔ یقینی طور پر، مجھے یہ توقع نہیں ہے کہ ہم کل جنیوا میں ان مسائل کو حل کر پائیں گے ۔انھوں نے کہا کہ یوکرین کے معاملے پر روس کی کارروائیاں بین الاقوامی روایات کی انحرافی کے مترادف ہیں اور یہ دوسرے ملکوں کی علاقائی سالمیت کے حوالے سے کئی ایک معاہدوں،سمجھوتوں اور یاد دہانیوں کی تازہ ترین خلاف ورزیوں کے زمرے میں آتی ہیں۔برلن ہی میں اکیڈمی آف سائنسز میں خطاب کرتے ہوئے، بلنکن نے کہا کہ روس کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنے عزائم پورے کرنے کے لیے دنیا کو غیر مستحکم کردے۔ انھوں نے کہا کہ اگر روس کو اس بات کی اجازت دی گئی تو اس سے یہ پیغام جائے گا کہ مروجہ اقدار اور اصولوں کو قربان کیا جاسکتا ہے۔ بقول ان کے، علاقائی سالمیت اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا ۔ جمعرات کو بلنکن نے برلن میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے اعلیٰ سفارت کاروں سے ملاقات کی جس میں اس لائحہ عمل کو زیر غور لایا گیا جو روس کی یوکرین پر جارحیت کی صورت میں اختیار کیا جاسکتا ہے۔اس سے ایک ہی روز قبل، بلنکن کئیف میں تھے جہاں انھوں نے یوکرین کے صدر زیلنسکی سے تفصیلی بات چیت کی تھی۔بدھ کے روز بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ روس یوکرین پر حملہ کرے گا، جس پر انھوں نے روسی صدر ولادی میر پوٹن کو متنبہ کیا کہ اگر ان کے ملک نے ایسا اقدام کیا تو ہلاکتوں کے اعتبار سے اور دنیا کی بینکاری نظام سے کٹ جانے کی امکانی صورت حال کے لحاظ سے اسے سنگین قیمت ادا کرنی پڑے گی۔تاہم، بائیڈن کو اتحادیوں کی جانب سے اس وقت نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا جب انھوں نے یہ کہا کہ روسی جارحیت کے جواب کا دارومدار اس بات پر ہوگا کہ وہ کیا کرتا ہے؛ اگرتو یہ ایک معمولی در اندازی ہے تو پھر ہم یہ سوچیں گے کہ اس پر ردعمل کے اظہارکی کیا نوعیت ہو سکتی ہے۔ایک ٹوئٹر پیغام میں، یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا۔ بقول ان کے، ہم عالمی طاقتوں کو یا د دلانا چاہیں گے کہ معمولی دراندازی اور چھوٹے ممالک نہیں ہوا کرتے۔ بالکل اسی طرح جیسے معمولی ہلاکتیں یا اپنے پیاروں کی موت پر معمولی صدمہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ایسے میں جب یوکرین کی سرحد پر بڑے پیمانے پر روس کی فوج کی تعیناتی پر کشیدہ صورت حال کے پس منظر میں جمعرات کو روس نے اس ماہ دنیا کے کئی خطوں میں بڑی سطح پر بحریہ کی مشقیں کرنے کا اعلان کیا ہے۔ روس نے دعویٰ کیا ہے کہ ہمسایہ یوکرین میں اشتعال انگیزیوں کی سازشیں کی جا رہی ہیں ، جہاں روس پر الزام ہے کہ وہ اپنی جارحانہ فوجی حکمت عملی کو آگے بڑھا رہا ہے۔بیلاروس میں بڑی سطح کی مشترکہ جنگی مشقوں کے اعلان کے بعد روس نے پہلے ہی یوکرین کی سرحد کے ساتھ اندازاً ایک لاکھ فوج تعینات کر رکھی ہے۔اس نئے اعلان میں روسی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ ملک کی بحریہ بھی جنگی مشقیں کرے گی جس میں 140 سے زائد لڑاکا بحری بیڑا اور 60 سے زائد لڑاکا جنگی جہاز مشقوں میں حصہ لیں گے، جو اس ماہ شروع ہوں گی اور فروری تک جاری رہیں گی۔ اعلان میں کہا گیا ہے کہ یہ بحری مشقیں بحیرہ روم، شمال مشرقی بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل میں کی جائیں گی۔روسی وزارت دفاع نے مزید کہا ہے کہ پہلے ہی خلیج عمان میں چین اور ایران کے ساتھ ساتھ متعدد روسی جنگی بحری بیڑے منگل کے روز سے مشترکہ جنگی مشقوں میں حصہ لے رہے ہیں جو اگلے اختتام ہفتہ تک جاری رہیں گی۔