روسی جارحیت کی صورت میں یوکرین کو فوجی سازوسامان دیں گے، نیٹو بروئے کار آئے گا: بلنکن
کیف،جنوری۔اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ یوکرین کے معاملے پر جاری کشیدگی میں کمی لانے کے لیے مکالمے اور سفارت کاری کی راہ کو ترجیح دی جانی چاہیے، امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ اگر روس نے یوکرین کے خلاف جارحیت سے کام لیا تو اس کا سخت رد عمل سامنے آئے گا اور روس کو سنگین نتائج بھگتنے پڑیں گے، جن میں اقتصادی پابندیاں بھی شامل ہیں۔انھوں نے کہا کہ اب یہ بات پوٹن پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں ۔بلنکن نے کہا کہ روس پر یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ وہ یوکرین کو فتح کرنے کے عزائم ترک کر دے، اور مکالمے اور سفارت کاری کی راہ اپنائے ۔یوکرین کے دارالحکومت کیف میں وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں، جسے یوٹیوب پر براہ راست نشر کیا گیا، بلنکن نے کہا کہ وہ اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ جمعے کے روز جنیوا میں بالمشافہ ملاقات کریں گے، جس میں انھیں امریکہ، یورپی یونین اور اپنے اتحادیوں کی جانب سے یہ واضح پیغام دیا جائے گا کہ وہ یوکرین پر حملے کی خام خیالی ترک کر دیں، جسے کسی طور پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ یوکرین پر حملے کی صورت میں نیٹو اور یورپی ممالک یوکرین کو فوجی ساز و سامان سمیت درکار تمام ضروری تعاون فراہم کریں گے۔ منسک سمجھوتے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں بلنکن نے کہا کہ یوکرین نے اس پر مکمل عمل درآمد کیا ہے، جب کہ روس نے سمجھوتے پر کوئی پیش رفت نہیں دکھائی۔ بقول ان کے، اس ضمن میں سمجھوتے پر دستخط کرنے والے دیگر ارکان کے طور پر جرمنی اور فرانس کا مؤقف بالکل واضح ہے۔یہ معلوم کرنے پر کہ اگر روس نے یوکرین کو فتح کر لیا تو کیا یہ ممکن ہو گا کہ گیس کی تیار پائپ لائن سے گیس کی رسد یورپی ملکوں کو جاری کر دی جائے گی، بلنکن نے کہا کہ یہ بات بعید از قیاس ہے ، ایسا ممکن نہیں۔ادھر واشنگٹن میں ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹروں نے بدھ کے روز بائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کی جانب سے یوکرین پر حملے کے خدشات کے معاملے پر ٹھوس مؤقف اختیار کیا جائے۔سینیٹر جان کورنیون نے بدھ کے دن کیپیٹل ہل پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تاریخی طور پر، جنگ شروع کرنا آسان ہوتا ہے اور اسے ختم کرنا دشوار۔ یہی وجہ ہے کہ محض پابندیوں کی دھمکی (روسی صدر) ولادیمیر پوٹن کو یوکرین پر حملہ کرنے سے نہیں روک سکتی ۔کورنیون نے مزید کہا کہ پوٹن کو ڈرانے کے لیے یہ بتانا کافی نہیں ہے کہ ہم یوکرین کو کثیر مالی مدد فراہم کریں گے۔ اور کوئی اس بات کو غلط نہ سمجھے کہ ایوان کے دونوں اطراف کی جماعتیں اس بات پر متحد ہیں کہ پوٹن کو روکا جائے تاکہ یوکرین پر حملے کی جسارت کرنے سے پہلے اس معاملے کے بارے میں دو بار سوچنے پر مجبور ہوں ۔گروپ میں سینیٹ کی مسلح افواج کی کمیٹی اور امور خارجہ کی قائمہ کمیٹی میں ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان شامل تھے۔ان میں سے تین ارکان کیون کریمر، راجر وکر اور روب پورٹمین اْس وفد میں شامل تھے جس نے اسی ہفتے یوکرین کے دارالحکومت کئیف کا دورہ کیا، اور جس میں امریکی ایوان نمائندگان کے دونوں اطراف کے منتخب اراکینشامل تھے۔ انھوں نے یوکرین کے عہدے داروں سے ملاقات کی اور امریکہ۔یوکرین تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کیا اور یوکرین کی دفاعی ضروریات میں مدد کی فراہمی کا اعادہ کیا۔
صدر زیلنسکی سے ملاقات:اس سے قبل، امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے بدھ کو یوکرین کا دورہ کیا جہاں انھوں نے یوکرین کے صدر دلادی میر زیلنسکی کے ساتھ ملاقات کی۔ انھوں نے زیلنسکی کو بتایا کہ روس یوکرین سرحد پر تنازع پر کشیدگی میں کمی لانے کے لیے واضح ترجیح یہی ہے کہ سفارت کاری سے کام لیا جائے۔ لیکن، اگر روس یوکرین کے خلاف جارحیت کرتا ہے تو اسے، بقول ان کے، انتہائی سخت نتائج بھگتنے پڑیں گے ۔کیف میں زیلنسکی کے ساتھ ملاقات سے قبل، بلنکن نے کہا کہ آج یوکرین کی سرحد کے قریب ایک لاکھ روسی فوجی تعینات ہیں اور اسی وجہ سے یوکرین کو غیر معمولی نوعیت کا خطرہ لاحق ہے ۔بلنکن نے اس بات کا اعادہ کیا کہ علاقائی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے امریکہ یوکرین کی ہر ممکن مدد کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ یوکرین کو اپنے مستقبل اور اپنے ملک کے آئندہ کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔زیلنسکی نے یوکرین کی فوجی امداد میں اضافہ کرنے پر بلنکن اور بائیڈن انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا۔امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینئر اہل کار نے بدھ کے روز اخباری نمائندوں کو بتایا کہ بائیڈن انتظامیہ نے گزشتہ ماہ اضافی دفاعی سلامتی کی امداد کے لیے 200 ملین ڈالر کی منظوری دی ہے۔یوکرین کے سربراہ کے ساتھ مذاکرات سے قبل بلنکن نے کیف میں امریکی سفارت خانے کے عملے سے خطاب میں کہا کہ انھیں پوری امید ہے کہ مکالمے اور سفارت کاری کے ذریعے ہی کشیدگی میں کمی لائی جائے گی۔روس نے بیلاروس میں فوجی مشقوں کے ساتھ ساتھ، یوکرین کی سرحد پر اندازاً ایک لاکھ فوج تعینات کر رکھی ہے، جس کے باعث اس تشویش کو تقویت ملتی ہے کہ روس یوکرین کو فتح کرنے کے عزائم رکھتا ہے۔روس نے یوکرین کے شمال، جنوب اور مشرق میں فوجی، ٹینک اور توپ خانہ تعینات کر رکھا ہے۔
ماضی میں روس جارحیت سے کام لیتا رہا ہے:سال 1991ء تک یوکرین روسی قیادت والے سویت یونین کا حصہ تھا۔ روس کے ساتھ موجودہ تناؤ 2014ء میں تب شروع ہوا جب روس نے حملہ کر کے کرائمیا کا جزیرہ یوکرین سے چھین لیا، اس اقدام کو یورپی یونین یا امریکہ نے تسلیم نہیں کیا۔ روس نے ان علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی جاری رکھی ہے جنھوں نے مشرقی یوکرین میں روس کی سرحد کے ساتھ والے علاقے کا کنٹرول سنبھال رکھا ہے۔امریکہ، نیٹو اور یورپ کی سلامتی اور تعاون کی تنظیم کی جانب سے روس کے ساتھ ہونے والے اجلاسوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، اور یوکرین کے اتحادی روس سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ وہ تناؤ کی صورت حال میں کمی لانے کا اقدام کرے۔روس نے یوکرین کو فتح کرنے کے معاملے پر اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو مسترد کیا ہے اور چند ضمانتیں مانگی ہیں جن میں یہ بات بھی شامل ہے کہ نیٹو اس کی سرحد کے ساتھ کارروائیاں نہیں کرے گا، مثلاً یوکرین کو مغربی فوجی اتحاد میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ امریکہ اور نیٹو اس قسم کے مطالبات کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر چکے ہیں کہ نیٹو کھلی سرحدوں کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور یوکرین کو اپنا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے کہ وہ کس اتحاد میں شامل ہونا چاہتا ہے۔یوکرین کے مغربی اتحادیوں نے اس بات کا عہد کر رکھا ہے کہ اگر روس نے یوکرین کے علاقے پر حملہ کیا تو سخت معاشی پابندیوں کے ذریعے روس کو اس کی سخت سزا دی جائے گی۔