سوڈانی فوج کا جمہوریت پسند مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کا استعمال

خرطوم،جنوری۔سوڈانی فوج نے دارالحکومت خرطوم میں صدارتی محل کے باہر جمع ہزاروں جمہوریت پسند مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کا استعمال کیا۔ فوج نے اس علاقے میں ٹیلی کمیونیکشن کا نظام بھی بند کر رکھا ہے۔ 25 اکتوبر کو فوجی جرنیل عبدالفتاح البرہان نے حکومت کا تختہ الٹتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور تب سے ہزاروں مظاہرین کی طرف خرطوم میں صدارتی محل کے علاوہ متعدد دیگر علاقوں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم اتوار کے روز ہزاروں افراد نے جمہوریت کے حق میں ریلی نکالی۔ ان مظاہرین کی جانب سے عوام کی طاقت‘ اور فوج بیرکوں میں واپس جاؤ‘ جیسے نعرے لگائے جا رہے تھے۔ خبر وں کے مطابق فوج نے مظاہرین کے حامل علاقوں میں اسی تناظر میں آج انٹرنیٹ کی سہولت معطل کر دی گئی تھی تاکہ سوشل میڈیا ان مظاہروں کے پھیلاؤ کے لیے استعمال نہ ہو سکے۔ اس کے علاوہ دارالحکومت اور دیگر شہروں کے درمیان زمینی راستوں کو کنٹینروں کے ذریعے بند کیا گیا ہے۔خبروں آج اتوار دو دسمبر کو مظاہرے روکنے کے لیے فوج نے مشین گنوں سے لیس فوجی اہلکاروں کی بڑی تعداد تعینات کی تھی، تاہم اس کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکلی۔ طبی ذرائع کے مطابق اکتوبر میں فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک کم از کم 54 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔سوڈان میں فوجی بغاوتوں کی تاریخ طویل ہے۔ سن 2019 میں پرتشدد مظاہروں کے بعد طویل عرصے تک مطلق العنان حکومت کرنے والے صدر عمر البشیر کے اقتدار کا خاتمہ ہوا تھا۔ تاہم اس کے بعد سوڈان دھیرے دھیرے دوبارہ جنرل برہان کے گرفت میں جاتا چلا گیا۔ عمر البشیر کے بعد اقتدار سنبھالنے والے وزیراعظم عبداللہ ہمدوک کو اکتوبر میں جنرل برہان نے گرفتار کر لیا تھا۔جس کے بعد مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔ 21 نومبر کو ہمدوک کو دوبارہ منصب وزرات عظمی دے دیا گیا تھا تاہم مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔مظاہرین کا کہنا ہے کہ جنرل برہان کے جمہوریت کے وعدوں پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا اور ان کی موجودگی میں ملک کبھی حقیقی جمہوریت کی جانب نہیں بڑھ سکتا۔ سوڈان میں جمہوریت پسند ڈاکٹروں کی تنظیم کے مطابق جمہوریت پسندوں نے دو ماہ سے شدید کریک ڈاؤن اور 54 افراد کی ہلاکت کے باوجود فوج کے اقتدار پر قبضے کے خلاف اپنی مہم جاری رکھی ہے۔ جب کہ آنسوگیس اور طاقت کے استعمال کے باوجود وہ جمہوریت کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں۔

Related Articles