برطانیہ ضعیف ہورہا ہے
عارف عزیز(بھوپال)
برطانیہ اپنی تاریخ کے سنگین بحران سے دوچار ہے جبکہ اس کی آبادی کا توازن ڈگمگاتا نظر آرہا ہے۔ گو برطانیہ ۱۷۰۷ء میں معرض وجود میں آیا تھا جب انگلستان اور اسکاٹ لینڈ ایک ملک میں مدغم ہونے پر راضی ہوئے تھے اور دیلز اور شمالی آئرلینڈ کو بعد میں برطانیہ میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا تھا۔ لیکن ان چاروں علاقوں کی تاریخ ایک ہزار سال سے زیادہ پرانی ہے۔ اب اس ملک کے باسی بھی بڑی تعداد سے بوڑھے ہوتے جارہے ہیں جس کے نتیجہ میں یہ بوڑھوں کا ملک بنتا جارہا ہے۔ اس وقت یہاں ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے ایک کروڑ ۱۸ لاکھ نفوس ہیں جو ملک کی کل آبادی کا ۱۹ فیصد حصہ بنتے ہیں۔ جس رفتار سے بوڑھے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اس کے پیش نظر حکومت نے یہ تخمینہ لگایا ہے کہ اگلے ۲۰ برس میں یہ تعداد ایک کروڑ ۵۱ لاکھ تک پہنچ جائے گی اور ملک میں بوڑھوں کی تعداد ۲۲ فیصد حصہ بن جائے گی۔ اس وقت ۸۵ سال کی عمر کے افراد کی تعداد ۱۳ لاکھ ہے اور ایک سو برس سے زیادہ عمر کے لوگوں کی تعداد ۱۱ ہزار ہے جو اگلے ۲۰ برس میں ۸۰ ہزار تک پہنچ جائے گی۔ ایک سو سال قبل برطانیہ میں ایک سو سال کی عمر والے افراد کی تعداد صرف ایک سو تھی۔
ملک میں بوڑھوں کی تعداد میں اضافہ کی گئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ صحت اور علاج معالجہ کی سہولتوں اور ادویات کے شعبہ میں ترقی کی بدولت عام طور پر لوگ لمبی عمر پارہے ہیں۔ دوسری وجہ ملک میں افزائش نسل کی شروع میں تیزی سے کمی ہوئی ہے۔ اس ضمن میں یہ بات اہم ہے کہ گو انگریزوں کے ہاں بچوں کی پیدائش کی شرح میں کمی ہوئی ہے لیکن تارکین وطن کے ہاں بچوں کی پیدائش میں اضافہ ہوا ہے۔ عمومی طور پر بچوں کی پیدائش کی شرح میں کمی کے باوجود سرکاری تخمینہ ہے کہ اگلے ۲۰ برس میں برطانیہ کی آبادی ۶ کروڑ ۱۰ لاکھ سے بڑھ کر ۷ کروڑ ۱۶ لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ آبادی میں اس ممکنہ اضافہ کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اگلے بیس برس میں ہر سال ایک لاکھ ۸۰ ہزار تارکین وطن برطانیہ میں آباد ہوں گے جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہوگی۔ یوں تارکین وطن کی بدولت نہ صرف معیشت کو سنبھالا ملے گا بلکہ ملک میں ان نوجوانوں کے آباد ہونے سے بوڑھے لوگوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے بگڑنے والا توازن بھی سنبھلے گا۔
یہ بات برطانیہ کے لیے باعث تشویش ہے کہ تاریخ میں پہلی بار ۱۶ سال کی عمر کے بچوں کی تعداد کے مقابلہ میں ۶۵ سال سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد بڑھ گئی ہے جس کے بلا شبہ دور رس سماجی، اقتصادی اور مالی مضمرات ابھرتے نظر آرہے ہیں۔ اس وقت ملک میں کل وقتی برسر روزگار مردوں کی تعداد ایک کروڑ ۳۸ لاکھ ہے اور خواتین کی تعداد ۷۸ لاکھ ۹۰ ہزار ہے۔ یوں برسر روزگار افراد کی کل تعداد دو کروڑ ۱۷ لاکھ کے قریب ہے۔ ان کے مقابلہ میں پینشن یافتہ افراد کی تعداد ایک کروڑ ۱۸ لاکھ ہے۔ اس طرح اس وقت ہر چار برسر روزگار افراد ٹیکسوں کے ذریعہ ایک پینشز کی مالی کفالت کرتے ہیں۔ سرکاری تخمینہ کے مطابق جس رفتار سے بوڑھوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اس کے پیش نظر اگلے ۲۰ برس میں صرف دو برسرروزگار افراد ایک پینشنز کی کفالت کریں گے۔ اس صورت حال میں نہ صرف بوڑھوں کی کفالت کرنے والوں کی تعداد کم ہوجائے گی بلکہ بوڑھے پینشنروں کی تعداد میں اضافہ ہوگا جس کے نتیجہ میں حکومت کو سرکاری پیشنوں کی مد میں بہت زیادہ خرچ کرنا پڑے گا۔ اس وقت برطانیہ میں فلاحی نظام کے تحت ہر مرد کو جو ۶۵ سال کی عمر میں ریٹائر ہوتا ہے اور عورت جو ۶۰ سال کی عمر میں ریٹائر ہوتی ہے ہر ہفتہ ۹۷ پونڈ فی کس پینشن ملتی ہے۔ یہ پنشن دراصل اس رقم میں سے ملتی ہے جو ۶ ہزار پونڈ سالانہ سے زیادہ کمانے والا ہر شخص نیشنل انشورنس کے طور پر ادا کرتا ہے۔ آمدنی کے مطابق یہ نیشنل انشورنس انکم ٹیکس کے علاوہ ہے۔ بے روزگاری اور بیماری کے دوران اسی نیشنل انشورنس کی مد سے مدد ملتی ہے۔ اس وقت حکومت کو سرکاری پنشن کی ادائیگی کی صورت میں ۴۰؍ ارب پونڈ کا مالی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ ملک میں پینشنروں کی تعداد میں اضافہ سے بلا شبہ حکومت پر پہاڑ جیسا مالی بوجھ پڑے گا۔