ذہنی تناؤ کا سب سے زیادہ شکار ہندوستانی

عارف عزیز(بھوپال)

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ذہنی تناؤ، مایوسی، محرومی اور انتشارِِ فکری کے سب سے زیادہ شکار افراد ہندوستان میں ہیں۔ اقوام متحدہ کے ’’انٹرنیشنل فنڈ فاراگریکلچرل ڈیولپمنٹ اور ’’ورلڈ فوڈ پروگرام‘‘ جیسی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ہندوستان میں ۲۱ کروڑ ۷۰ لاکھ افراد تغذیہ کی کمی کا شکار ہیں۔ یہ اعداد و شمار دنیا میں سب سے زیادہ ہے یعنی دنیا بھر میں سب سے زیادہ ناقص غذاؤں کے شکار ہندوستان میں بستے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے زراعت اساس ملک میں یہ مسئلہ کیوں ہے؟ جبکہ ہم نہ صرف معیشت کی سطح پر ترقی کر رہے ہیں بلکہ اقتصادی بحران کا بھی ہم پر کوئی خاص اثر نہیں واقع ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ملک جو ترقی کر رہا ہے، اس کا فائدہ سبھی افراد کو یکساں طور پر نہیں حاصل ہورہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو بہتر ہوگا کہ امیر افراد امیر تر ہوتے جارہے ہیں اور غریب لوگ مزید غربت کا شکار ہورہے ہیں چونکہ غریبوں کی تعداد زیادہ ہے اس لئے ہمارے ملک میں ناقص غذا، مایوسی اور ناامیدی سے دو چار افراد کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ حال میں اقتصادی اصلاحات کے نام پر جو ڈیزل کی قیمتیں بڑھائی گئیں اور رسوئی گیس کی تعداد محدود کی گئی اس کی وجہ سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوا اور ڈپریشن کا شکار ہونے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے اپنی عالمی ذہنی صحت سے متعلق رپورٹ میں اس حقیقت کا انکشاف کیا ہے کہ پوری دنیا میں ڈپریشن کے سب سے زیادہ شکار افراد ہندوستان میں ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق کم و بیش ۶ فیصد ہندوستانی اپنی زندگی میں ڈپریشن کے طویل المدتی دور سے گزرتے ہیں، جبکہ کم و بیش ۳۶ فیصد ہندوستانی ’’میجرڈپریسیوایی سوڈ‘‘ کا شکار ہیں۔ اس کی علامات اداسی، چیزوں میں عدم دلچسپی، مجرمانہ ذہنیت کا فروغ، نیند نہ آنا، بھوک نہ لگنا، توانائی کی کمی اور جوش کا فقدان وغیرہ ہیں۔ ہندوستان میں ڈپریشن کی اوسط عمر ۹ء۳۱ برس ہے جبکہ چین میں یہ ۸ء۱۸ برس اور امریکہ میں ۷ء۲۷ سال ہے، اس سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ۲۰۲۰ء تک بیماریوں کی دوسری بڑی وجہ ڈپریشن ہوجائے گی اور ۲۰۳۰ تک یہ سب سے زیادہ بڑا بیماری کا باعث قرار دیا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مردوں کے مقابلے خواتین میں ڈپریشن اور خودکشی کرنے کا رجحان کا خطرہ ۵۰ فیصد زیادہ ہے۔ ’’ورلڈ سائیکیڑک ایسوسی ایشن‘‘ کا کہنا ہے کہ دنیا میں دس میں سے ایک شخص زبردست ڈپریشن کے شکار ہے۔ پانچ میں سے ایک شخص اپنی پوری زندگی میں کم سے کم ایک بار ضرور اِس کا شکار ہوتا ہے، جو لوگ ایک سال تک ڈپریشن کا شکار ہورہے ہیں ان کا عالمی طور پر تناسب ۱۰ فیصد ہے۔ زندگی بھر ڈپریشن کا شکار رہنے والوں کی تعداد ۱۷ فیصد ہے اور ان میں سے ۱۰ لاکھ افراد خودکشی کرلیتے ہیں۔ بی اے سی میڈیسن جرنل میں شائع اس رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ۱۲۱۰ لاکھ افراد ڈپریشن کا شکار ہیں اور ۱۵ سے ۴۴ سال کے افراد کے درمیان کم عمری میں موت کی دوسری بڑی وجہ ڈپریشن ہے۔ فی الحال ڈپریشن بیماریاں بڑھانے کی چوتھی بڑی وجہ ہے۔ بھوک اور ناقص غذا ڈپریشن کی ایک بڑی وجہ قرار دی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں جب لوگ غذا کی کمی کا شکار ہو کر ذہنی تناؤ میں مبتلا ہورہے ہیں اور بہت سے افراد اِس کی وجہ سے خودکشی کر رہے ہیں، تو وہ حکومت جو اقتصادی اصلاحات میں خود کو مصروف رکھے ہوئے ہے، اُس کی توجہ اِس بڑے مسئلے کی طرف کیوں مبذول نہیں ہوتی ہے؟

 

Related Articles