پیگاسس جاسوسی: سپریم کورٹ نے مغربی بنگال کے لوکور انکوائری کمیشن پر روک لگا دی
نئی دہلی، دسمبر۔ سپریم کورٹ نے پیگاسس جاسوسی تنازعہ کی تحقیقات کے لیے مغربی بنگال حکومت کی جانب سے تحقیقاتی کمیشن کے قیام پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے جمعہ کو اس کے کام پر روک لگا دی۔جسٹس این۔ وی۔ رمنا اور جسٹس سوریہ کانت اور ہیما کوہلی کی بنچ نے ریاستی حکومت کے ذریعہ جسٹس مدن بی۔ لوکور کی صدارت میں تشکیل دیے گئے کمیشن آف انکوائری کے کام پر فوری طور پر روک دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بنچ نے لوکور کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا۔درخواست گزار رضاکارانہ تنظیم گلوبل ولیج فاؤنڈیشن چیریٹیبل ٹرسٹ اور دیگر کی طرف سے مفاد عامہ کی عرضیوں کا نوٹس لیتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے نوٹس جاری کیا۔غیر سرکاری تنظیم نے سپریم کورٹ سے ریاستی حکومت کی طرف سے قائم کردہ کمیشن کے کام پر فوری روک لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے معاملے کی تحقیقات کے لیے 27 اکتوبر کو ایک آزاد ماہر کمیٹی تشکیل دی تھی۔ ایسے میں ریاستی حکومت کی جانب سے اسی معاملے کی تحقیقات کے لیے الگ کمیشن تشکیل دینا ناانصافی ہے۔سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مغربی بنگال حکومت کی نمائندگی کررہے ڈاکٹر ابھیشیک منو سنگھوی سے کہا کہ ریاستی حکومت نے زبانی وعدہ کیا تھا کہ وہ الگ کمیشن نہیں بنائے گی۔ اس کے باوجود حکومت کی جانب سے ایک کمیشن بنایا گیا اور کہا جا رہا ہے کہ تحقیقات جاری ہیں۔ اس پر مسٹر سنگھوی نے کہا کہ حکومت اس کمیشن کے کام میں مداخلت نہیں کر رہی ہے۔بنچ نے مغربی بنگال کے استدلال کو مسترد کرتے ہوئے ناراضگی کا اظہار کیا اور اس سے کہا کہ وہ کمیشن کو نوٹس جاری کرنے کے ساتھ اس کے کام کاج پر روک لگا کر جواب دے۔سپریم کورٹ نے 27 اکتوبر کو مختلف درخواست گزاروں کی درخواست پر پیگاسس کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد ماہر کمیٹی تشکیل دی تھی۔درخواست گزار این جی او نے جمعرات کو خصوصی ذکر کے تحت مغربی بنگال کی طرف سے تشکیل کردہ انکوائری کمیشن کے معاملے میں فوری سماعت کی درخواست کی تھی۔پیگاسس تنازعہ اسرائیل کے جاسوسی سافٹ ویئر کے ذریعے حزب اختلاف کے ممتاز رہنماؤں، صحافیوں، وکلاء، بیوروکریٹس، کئی وزراء اور اقتدار کے قریب رہنے والوں کی موبائل گفتگو کو غیر قانونی طور پر سننے کے الزامات سے منسلک ہے۔کہا جاتا ہے کہ لوکور کمیشن نے کانگریس لیڈر راہل گاندھی، ترنمول کانگریس لیڈر ابھیشیک بنرجی، سینئر وکیل پرشانت کشور، دہلی پولیس کمشنر راکیش استھانہ، بنگال کے چیف سکریٹری ایچ کے دویدی سمیت 30 سے زیادہ لوگوں کو اپنی تحقیقات میں شامل ہونے کو کہا تھا۔سپریم کورٹ نے 27 اکتوبر کو مبینہ جاسوسی کے اس معاملے میں ایک آزاد ماہر کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کی نگرانی کی ذمہ داری ریٹائرڈ جج جسٹس آر وی رویندرن کو سونپی گئی تھی۔عدالت عظمی کی جانب سے جسٹس رویندرن کی صدارت میں تشکیل کمیٹی میں سابق انڈین پولیس سروس (آئی پی ایس) افسر آلوک جوشی اور ماہر ڈاکٹر سندیپ اوبرائے سپریم کورٹ کی طرف سے معاون کے کردار میں ہیں۔جسٹس رویندرن کی نگرانی میں سائبر اور فرانزک ماہرین پر مشتمل تین رکنی تکنیکی کمیٹی پورے معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔مسٹر جوشی 1976 بیچ کے آئی پی ایس افسر ہیں اور انٹیلی جنس بیورو میں جوائنٹ ڈائریکٹر کے علاوہ کئی مرکزی تفتیشی ایجنسیوں میں کلیدی عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔ڈاکٹر اوبرائے چیئرمین ذیلی کمیٹی (انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف اسٹینڈرڈائزیشن / انٹرنیشنل الیکٹرو ٹیکنیکل کمیشن / جوائنٹ ٹیکنیکل) ہیں۔عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ جسٹس رویندرن کی سربراہی میں اس کمیٹی کی نگرانی میں تکنیکی کمیٹی کے رکن کے طور پر پروفیسر۔ اشونی انل گماستے، ڈاکٹر نوین کمار چودھری اور ڈاکٹر پربھرن پی ممبران تکنیکی پہلوؤں کا جائزہ لیں گے۔ ڈاکٹر چودھری، (سائبر سیکیورٹی اینڈ ڈیجیٹل فرانزکس)، ڈین- نیشنل فارنسک سائنس یونیورسٹی، گاندھی نگر (گجرات)، ڈاکٹر پربھرن پی (اسکول آف انجینئرنگ) امرت وشوا ودیاپیتم، امرتاپوری، کیرالہ اور پروفیسر گماستے، انسٹی ٹیوٹ کے چیئر ایسوسی ایٹ پروفیسر (کمپیوٹر سائنس اینڈ انجینئرنگ) کا تعلق انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ممبئی سے ہے۔سپریم کورٹ نے ایک انکوائری کمیٹی قائم کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’شہریوں کے پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی۔ ان کی آزادی کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔”سپریم کورٹ نے اس معاملے کی آٹھ ہفتے بعد سماعت کرنے اور اس دوران کمیٹی کو عبوری رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی تھی۔