انل مینن چاند پر جانے والے پہلے انڈین نڑاد بن سکتے ہیں
نیویارک،دسمبر۔ناسا نے اپنے مستقبل کے مشنوں کے لیے 10 نئے خلابازوں کی ٹیم کا اعلان کیا ہے، جس میں انڈین نڑاد معالج انل مینن بھی شامل ہیں۔مینن اگلے سال جنوری سے ناسا میں اس نئے کردار میں کام شروع کریں گے۔امریکی ریاست مینیسوٹا میں ایک انڈین تارکین وطن خاندان میں پیدا ہونے والے انل نے سنہ 2018 میں سپیس ایکس میں شمولیت اختیار کی تھی اور وہاں چیف فلائٹ سرجن کے طور پر کام کیا۔ سنہ 2014 میں انھوں نے بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے ساتھ ڈپٹی کریو سرجن کے طور پر کام کیا۔اس سے پہلے بھی وہ ناسا کی جانب سے بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر بھیجے جانے والے عملے کے لیے فلائٹ سرجن کے طور پر کام کر چکے ہیں۔45 سال کے انل مینن کا اس ٹیم میں انتخاب پانچ بار درخواستیں دینے کے بعد کیا گیا ہے۔ اس سال نومبر میں سپیس کیپسول سے چھ ماہ تک خلا میں رہنے والے فرانسیسی خلاباز تھامس پیسکویٹ کو انل مینن نے اپنے ڈریگن کیپسول سے بحفاظت باہر نکالا تھا۔خبر رساں ایجنسی ایف پی سے بات کرتے ہوئے انل مینن نے کہا کہ ’یہ بہت ہی اچھا ہو گا کہ اب میں خود اس تجربے کو محسوس کر سکتا ہوں۔‘اپنی طبی تحقیق کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ میڈیکل کے بارے میں میری سمجھ لوگوں کو صحت مند اور محفوظ رکھنے میں مدد کرے گی۔‘1999 میں انل مینن نے ہارورڈ یونیورسٹی سے نیورو بائیولوجی میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی اور سنہ 2004 میں سٹینفورڈ یونیورسٹی سے مکینیکل انجینئرنگ میں ماسٹر ڈگری حاصل کی تھی۔سنہ 2009 میں انھوں نے سٹینفورڈ میڈیکل سکول سے ڈاکٹر آف میڈیسن کے ساتھ گریجویشن کی۔ اپنے ہارورڈ کے دنوں میں مینن نے ہنٹنگٹنس کی بیماری پر تحقیق کی اور پولیو ویکسینیشن کا مطالعہ کرنے کے لیے روٹری ایمبیسیڈر سکالر کے طور پر ایک سال انڈیا میں رہے۔مینن نے کیلیفورنیا ایئر نیشنل گارڈ میں بھی شمولیت اختیار کی اور ریسنگ دی پلینٹ جیسی ریموٹ ایڈونچر ریس کے ذریعے جنگلی ادویات کا تجربہ حاصل کیا۔ایمرجنسی میڈیسن کے معالج انل مینن نے ایرو سپیس میڈیسن میں فیلوشپ کی تربیت حاصل کی ہے۔ناسا کی ویب سائٹ پر دی گئی سرکاری معلومات کے مطابق انھوں نے سنہ 2010 میں ہیٹی کے زلزلے میں کام کیا اور اس کے بعد 2015 میں نیپال کے زلزلے میں بھی لوگوں کی مدد کی۔ مینن کو ہنگامی حالات میں کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔مینن امریکی فوج کے ساتھ ’آپریشن اینڈیورنگ فریڈم‘ میں افغانستان میں بھی تعینات رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ماؤنٹ ایورسٹ پر کوہ پیماؤں کی دیکھ بھال کے لیے ہمالیائی ریسکیو ایسوسی ایشن کے لیے بھی کام کر چکے ہیں جس کے بعد ان کا ٹرانسفر امریکی فضائیہ کے 173ویں فائٹر ونگ میں کر دیا گیا جہاں انھوں نے ایرو سپیس میڈیسن کی تعلیم حاصل کی۔2021 کی ٹیم کے لیے بارہ ہزار امیدواروں میں سے چھ مرد اور چار خواتین کا انتخاب کیا گیا ہے۔ امیدواروں کو اب دو سال کی تربیت سے گزرنا ہو گا۔انہیں خلابازوں کے ایک بنیادی تربیتی پروگرام میں حصہ لینا ہو گا جس میں امیدواروں میں خلا میں پرواز کے لیے ضروری علم اور مہارت پیدا کی جائے گی۔امیدواروں کو فوج کی طرز پر پانی میں زندہ رہنے کا ہنر، ناسا کا ٹی 38 جیٹ اڑانے اور سکوبا ڈائیونگ کی تربیت دی جائے گی تاکہ وہ سپیس واک کرنے کے قابل ہو سکیں۔خلابازوں کے طور پر حتمی انتخاب صرف اس وقت کیا جائے گا جب یہ امیدوار ’سیٹسفیکٹری لیول‘ کے ساتھ تربیت حاصل کریں گے یعنی اس ٹیم میں شامل ہونا ہی مشن میں حتمی شمولیت کی ضمانت نہیں ہوتی۔