یوکرین پر روسی حملے کا خدشہ

جو بائیڈن اور ولادیمیر پوتن کی غیر معمولی ویڈیو کال

ماسکو/واشنگٹن،دسمبر۔امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان یوکرین میں بڑھتے تناؤ کے معاملے پر غیر معمولی ویڈیو کانفرنس ہوئی ہے۔روس کے ساتھ یوکرین کی مشرقی سرحد پر تناؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور یوکرین پر روس کے حملے کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ روس نے ہزاروں سپاہیوں کو سرحد پر پہنچا دیا ہے مگر اس کا اصرار ہے کہ اس کا یوکرین پر حملے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔روس چاہتا ہے کہ یوکرین نیٹو میں شامل نہ ہو مگر مغربی قوتوں کا کہنا ہے کہ یوکرین کی خود مختاری کا احترام کرنا چاہیے۔وائٹ ہاؤس کے مطابق دونوں ممالک کے صدور کے درمیان گفتگو عالمی وقت کے مطابق دوپہر تین بج کر سات منٹ پر شروع ہوئی۔روسی خبر رساں ادارے تاس کے مطابق یہ گفتگو گذشتہ ادوار میں قائم کیے گئے ایک ایسے محفوظ ویڈیو لنک پر ہوئی ہیں جنھیں کبھی استعمال نہیں کیا گیا۔گفتگو کے ابتدائی لمحات کی ویڈیو میں دونوں رہنماؤں کو ایک دوسرے سے خوشگوار انداز میں علیک سلیک کرتے دیکھا جا سکتا تھا۔روسی حکومت کے ترجمان دمتری پیسکوف کا کہنا ہے کہ گفتگو جب تک ضروری ہوگی، جاری رہے گی اور یہ کہ اس کا کوئی اختتام متعین نہیں ہے۔تاس کے مطابق صدر پوتن یہ گفتگو ملک کے جنوبی حصے میں واقع سوچی ریزورٹ میں اپنی رہائش گاہ سے کر رہے ہیں۔صدر بائیڈن اور صدر پوتن جون میں سوئٹزرلینڈ میں ملے تھے تاہم دونوں ہی سفیروں کو ایک دوسرے کے پاس بھیجنے اور جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے مذاکرات کے آغاز پر اتفاق کرنے کے علاوہ کوئی دوسری پیش رفت نہیں کر سکے۔دونوں صدور کے درمیان ویڈیو کال سے قبل مغربی طاقتوں نے روس پر زور دیا ہے کہ وہ یوکرین کے ساتھ کشیدگی کم کرے۔یوکرین پر روسی حملے کے خوف کے جواب میں صدر بائیڈن نے برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے راہنماؤں سے ’تمام وسائل بروئے کار لانے‘ پر اتفاق کیا۔ماسکو نے اس خدشے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حملے کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔روس نے یوکرین کی مشرقی سرحدوں کے ساتھ اپنے ہزاروں فوجیوں کو متحرک کر دیا ہے، اور یوکرین کا کہنا ہے کہ ٹینکوں کو اس کے علاقے کے اندر اگلے محاذ پر پہنچا دیا گیا ہے۔پیر کے روز ایک کانفرنس کال کے بعد وائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ پانچ مغربی راہنماؤں نے ایک مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق کیا ہے جس کے تحت اگر روسی فوجی یوکرین میں داخل ہوئی تو ’روس کی معیشت کو بڑا اور سخت نقصان پہنچایا جائے گا۔‘دوسری جانب برطانوی ایوان وزیر اعظم کے بیان کے مطابق انھوں نے ’یوکرین کی جغرافیائی سلامتی کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔‘اطلاعات کے مطابق ممکنہ اقدامات میں روسی بینکوں پر کرنسی کو زرِ مبادلہ میں تبدیل کرنے پر پابندیاں اور مالی ادائیگیوں کے عالمی نظام سوئفٹ سے روس کو منقطع کرنا شامل ہے۔روسی ایوان صدر کے ترجمان دمتری پیسکوف نے روسی حملے سے متعلق قیاس آرائیوں کو ’کم ظرفی اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔‘روس یہ ضمانت چاہتا ہے کہ یوکرین ان علاقوں کو واپس لینے کی کوشش نہیں کرے گا جن پر روس نواز علیحدگی پسندوں نے 2014 میں قبضہ کر لیا تھا۔ اس نے مغرب کو بھی خبردار کیا ہے کہ وہ یوکرین کے نیٹو اتحاد میں شامل کرکے ’ریڈ لائن‘ یعنی خطرے کی لکیر کو عبور کرنے کی کوشش نہ کرے۔خیال کیا جاتا ہے کہ یوکرین کی سرحدوں پر 90 ہزار سے زیادہ روسی فوجی موجود ہیں۔روسی فوجوں کا بڑا اجتماع کرائمیا میں ہے جسے روس نے یوکرین سے چھین کر 2014 میں اپنی حدود میں شامل کر لیا تھا۔اس کے علاوہ روس نواز علیحدگی پسندوں کے زیرِ کنٹرول دونباس کے خطے میں بھی فوجیں جمع ہو رہی ہیں۔یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ جنوری کے اختتام پر روس فوجی حملے کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے۔ وزارت دفاع نے منگل کے روز کہا ہے کہ ٹینکوں، توپخانے اور سنائپرز سمیت بھاری ہتھیاروں کی کمک باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں پہنچائی جا رہی ہے۔سات برس قبل یوکرین کے مشرقی علاقوں پر روس نواز فورسز کے قبضے کے بعد سے اب تک 14 ہزار سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں۔

 

Related Articles