ترک لیرا 15 فی صد تاریخی گراوٹ کے ایک روزبعد سنبھل گیا

انقرہ،نومبر۔ترکی کا لیرا اپنی قدر میں15 فی صد ریکارڈ کمی کے ایک روزبعد کچھ سنبھل گیا ہے۔ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے منگل کے روزشرح سود میں کمی کے فیصلے کا دفاع کیا تھالیکن کرنسی میں اتارچڑھاؤ اوراشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے سے صارفین اورسرمایہ کاروں کو اب بھی تشویش لاحق ہے۔لیرا پہلی مرتبہ ڈالر کے مقابلے میں نچلی سطح پر پہنچ گیا ہے اور رواں سال میں ڈالرکے مقابلے میں اس کی قدرمیں 40 فی صد کمی واقع ہوئی ہے، صرف گذشتہ ہفتے کے آغاز سے اب تک 19 فی صد کمی ہوچکی ہے۔بنک کاروں کا کہنا ہے کہ لیکویڈیٹی عملاً خشک ہوچکی ہے۔خوف وہراس کی وجہ سے ڈالرکی خریداری سے لیرا13۰45 فی صد کی ریکارڈ کم ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔لیرا کی گراوٹ کی وجہ سے بہت سے ترک خوف میں مبتلا ہیں اور وہ پہلے ہی افراط زر کی قریباً 20 فی صد شرح سے دوچار ہیں۔حزب اختلاف کے سیاست دانوں نے صدرایردوآن پر ملک کو معاشی بحران سے دوچارکرنے کا الزام لگایا ہے۔پرچون فروش بھی اس ہنگامے سے نبرد آزما ہیں اور بدھ کے روز کچھ ویب سائٹس نے الیکٹرانک مصنوعات کی فروخت روک دی ہے۔استنبول میں واقع ایپل اسٹور میں سیلز نمائندے نے بتایا کہ لوگ الیکٹرانکس پراتنی ہی سرمایہ کاری کاسوچتیہیں جتنا عام استعمال کی اشیاء پر کرتے ہیں۔صدر ایردوآن کی جانب سے مرکزی بنک کی مالیاتی پالیسی کا دفاع کرنے اور اپنی’’اقتصادی جنگ آزادی‘‘جیتنے کے عزم کے باوجود وہ کرنسی کی قدر میں کمی کے رجحان کو روکنے میں ناکام ہیں۔اس بنا پرانھیں معاشی ماہرین کے علاوہ حزب اختلاف کی تنقید کا سامنا ہے جبکہ ان کی حکومت نے کرنسی کی گراوٹ کو روکنے کے لیے مداخلت کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ترکی کے مرکزی بنک نے گذشتہ روزکہا تھا کہ وہ صرف ’’حد سے زیادہ اتار چڑھاؤ” میں کچھ حالات میں مداخلت کر سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ آج کی شرح تبادلہ کے ساتھ آنے والے مہینوں میں سرکاری افراطِ زرکی شرح 30 فی صد سے تجاوزکرسکتی ہے۔مرکزی بنک کے سابق چیف اکانومسٹ حقان کارا نے ٹویٹر پر لکھا کہ موجودہ ڈپازٹ ریٹ کے ساتھ اس کا مطلب ہے:15 فی صد کی حقیقی شرح سود۔انھوں نیمزید کہاکہ اگر فوری طورپراقدامات نہیں کیے گئے تو مالیاتی نظام اس سے نمٹ نہیں سکے گا۔صدر ایردوآن نے مرکزی بنک پردباؤ ڈالا ہے کہ وہ برآمدات، سرمایہ کاری اور ملازمتوں کے فروغ کے لیے جارحانہ اقدامات کرے۔لیکن بہت سے ماہرین معاشیات نے شرح سود میں کمی کوبے پروائی سے تعبیرکیا ہے۔منگل کو لیرا کی قدرمیں کمی 2018 میں کرنسی بحران کے عروج کے بعد سب سے بڑی گراوٹ تھی جس کی وجہ سے شدید کسادبازاری اور تین سال سے کم معاشی ترقی اورافراطِ زر کی شرح دوہندسوں میں ہوگئی تھی۔ترکی کے بنک دولت نے ستمبرسے اب تک شرح سودمیں مجموعی طورپر 400 پوائنٹس کی کمی کی ہے جس سے حقیقی پیداوارمنفی ہو گئی ہے کیونکہ قریباً دیگرتمام مرکزی بنکوں نے یا تو افراطِ زرکی بڑھتی ہوئی شرح کو روکنے کے لیے پالیسی سخت کرنا شروع کردی ہے یا ایسا کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔

Related Articles