یلدا حکیم کی افغانستان واپسی
تنخواہ کے بغیر کام کرتے ملازمین اور بحران سے متاثرہ معصوم بچے
لندن،نومبر۔بی بی سی کی صحافی یلدا حکیم افغانستان میں پیدا ہوئی تھیں۔ اْن کا خاندان سنہ 1980 میں افغانستان پر سویت قبضے کے دوران ملک چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ تاہم وہ تب سے مسلسل افغانستان سے رپورٹنگ کرتی رہی ہیں۔ اب ایک بار پھر وہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے تقریباً سو دن بعد اپنے آبائی ملک پہلی مرتبہ واپس آئی ہیں۔میں جانتی تھی کہ رواں برس اگست میں طالبان کی جانب سے افغانستان کے اقتدار پر قبضے کے بعد میرا پہلی مرتبہ اپنے آبائی وطن واپس آنا میرے لیے بہت سے سوالات کھڑے کرے گا۔مغربی حمایت یافتہ حکومت کو طالبان کی جانب سے بے دخل کیے جانے کے بعد سے افغان قوم میں کیا کچھ تبدیل ہوا ہے؟ کیا افغان عوام کو بالآخر وہ امن میسر آ گیا ہے جس کا وہ مدت سے انتظار کر رہے تھے؟ اور افغان طالبان کے دور حکومت میں یہاں کی خواتین اور لڑکیوں کا مستقبل کیا ہو گا، جنھیں پہلے ہی روز مرہ زندگی کے معاملات میں دوبارہ پیچھے دھکیل دیا گیا تھا؟تاہم میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک سوال مجھے خود سے پوچھنے کی ضرورت پیش آئے گی کہ جب تنخواہ بھی نہ مل رہی ہو تو ایسے حالات میں کام پر آنے کے لیے کتنی ہمت درکار ہوتی ہے؟لیکن اسے سوال کا جواب مجھے مل گیا۔ قندھار میں صحت حکام سے لے کر کابل کے ہسپتالوں میں صفائی کرنے والوں تک افغانستان کے عوامی صحت عامہ کے عملے میں سے کسی کو بھی افغانستان کی سابقہ حکومت کے خاتمے اور بیرونی امداد معطل ہونے کے بعد سے تنخواہ نہیں ملی تھی۔ان تمام تر وجوہات کے باوجود وہ پھر بھی روزانہ کام پر آتے ہیں تاکہ وہ تیزی سے بے چینی کا شکار ہوتی آبادی کا خیال رکھ سکیں حالانکہ وہ خود بھی اس مایوسی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔نسرین دارالحکومت کابل کے اندرا گاندھی چلڈرن ہسپتال میں بطور خاکروب کام کرتی ہیں۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ ’اگر ہم کام پر نہ آئیں تو یہ بچے مر جائیں گے، ہم انھیں کیسے اکیلا چھوڑ سکتے ہیں؟‘:بچوں کے وارڈ کو جہاں تک ممکن ہو سکے صاف رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہاں داخل مریض جو کمزور اور غذا کی شدید کمی کا شکار ہیں، کسی بڑی بیماری کا شکار نہ ہو جائیں۔نسرین کا کہنا ہے کہ وہ ٹرانسپورٹ کا کرایہ برداشت نہیں کر سکتیں، لہذا وہ پیدل چل کر کام پر آتی ہے۔ یہ ایک انتہائی مشکل سفر ہے جو کہ پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر طے ہوتا ہے۔ اور پھر وہ 12 گھنٹوں کی شفٹ کے بعد پہاڑ پر دوبارہ چڑھ کر گھر جاتی ہیں۔اگرچہ صحت کے عملے کے اراکین کی حالت زار کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو مگر جن مریضوں کی وہ دیکھ بھال کرتے ہیں وہ ان سے بھی بْری صورتحال کا شکار ہیں۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ تقریباً 23 ملین افغان باشندوں کو خوراک کی انتہائی قلت کا سامنا ہے اور 95 فیصد عوام کے پاس ناکافی خوراک ہے۔ہسپتال کے جن وارڈوں کو نسرین صاف کرتی ہیں وہاں آپ کو اس بحران کے سب سے معصوم اور چھوٹے متاثرین نظر آتے ہیں۔ان میں سے ایک تین سالہ گلنارا ہے جو اتنی کمزور ہیں کہ مشکل سے اپنی آنکھیں کھول پاتی ہیں۔ ان کی آنکھیں اندر دھنسی ہوئی ہیں، ان کے بال بے ترتیب ہو چکے ہیں۔ جب وہ نیند سے جاگتی ہیں تو درد سے رو دیتی ہیں۔افغانستان میں شدید غدائی قلت بچوں کو اس طرح متاثر کر رہی ہے۔طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے عالمی برادری پر انگلی اٹھاتے ہوئے انھیں اس سب کا ذمہ دار قرار دیا اور مجھے بتایا کہ افغان عوام کے مصائب اور مشکلیں کی وجہ مغربی ممالک کے اقدامات ہیں۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ ملک (افغانستان) تباہی، بھوک، انسانی بحران کی جانب بڑھ رہا ہے تو یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ کوئی اقدامات کریں کیونکہ درست اقدامات ان تمام بحرانوں کو روک سکتے ہیں۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بین الاقوامی برادری اور دیگر ممالک جو انسانی حقوق کے بارے میں بات کر رہے ہیں انھیں افغانستان میں بڑھتے ہوئے انسانی بحران کے سدباب کے لیے اقدامات اٹھانے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔‘آپ ان کے تجزیہ کو تسلیم کریں یا نہ کریں کہ قصوروار کون ہے مگر زیادہ تر مبصرین اس بات پر متفق ہوں گے کہ اس مسئلے کا حل بین الاقوامی فنڈنگ سے نکلے گا۔جب ملک کی معیشت کی بات کی جائے تو یہ مزید واضح ہو جاتا ہے، جب بین الاقوامی امداد بند کی گئی تو ملکی معیشت تباہ ہو گئی۔سڑک کنارے کام کی تلاش کے انتظار میں بیٹھے ایک شخص نے مجھے بتایا کہ ’میں اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتا تھا۔ اس وقت میری مہینے کی تنخواہ 25 ہزار افغانی تھی۔ لیکن اب میں مہینے کے دو ہزار بھی نہیں کما پاتا۔‘گھر پر موجود ان کے چاروں بچے بیمار ہیں اور ان کے پاس دوائی خریدنے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ’میں کوئی مستقبل نہیں دیکھتا ہوں، غریب خاندانوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔‘