لیورپول دھماکہ، دہشتگردی کے شبہے میں زیر حراست 4 افراد بنا چارج رہا
لندن ،نومبر۔ پولیس نے لیورپول ویمنز ہسپتال کے باہر دھماکے کے بعد دہشت گردی کے شبہے میں حراست میں لئے گئے4افراد کو چارج لگائے بغیر رہا کردیا ہے جبکہ دھماکے میں ہلاک ہونے والے 32 سالہ نوجوان، جس کا نام عماد السویلمین
بتایا گیا ہے، اصل ملزم قرار دے دیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ملزم اسائلم کا خواہاں تھا اور اس نے 2017 میں عیسائی مذہب قبول کرلیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کی کرائے کی رہائش گاہ سے اہم شواہد حاصل کرلئے۔ پیر کی شام انسداد دہشت گردی پولیس نارتھ ویسٹ کے سربراہ اسسٹنٹ چیف کانسٹیبل رس جیکسن نے بتایا کہ رٹ لینڈ ایونیو پر سیفٹن پارک کے نزدیک واقع ملزم کا مکان اب تفتیش کا بنیادی مرکز ہے۔ یہ وہی مکان ہے جہاں سے ملزم نے میٹرنٹی ہسپتال جانے کیلئے ٹیکسی حاصل کی تھی۔ ٹیکسی ڈرائیور ڈیڈ پیری دھماکے بعد گاڑی میں آگ لگنے سے پہلے ہی گاڑی سے نکل گیا تھا، اب اسے ہسپتال سے بھی فارغ کردیا گیا ہے۔ جیکسن کا کہنا ہے کہ اتوار کی صبح کے بعد سے ہم نے دھماکے میں استعمال ہونے والے پارٹس، ملزم نے وہ پارٹس کیسے حاصل کئے اور انھیں کیسے جوڑا گیا، کے حوالے سے اہم معلومات حاصل کرلی ہیں لیکن اس دھماکے کا منصوبہ کیسے بنایا گیا، اس کا پتہ چلانے میں وقت لگے گا۔ پولیس نے لیورپول کے علاقے کنسنگٹن سے اتوار کو 21, 26 اور 29 سال عمر کے 3 نوجوانوں اور پیر کو ایک 20 سالہ نوجوان کو حراست میں لیا تھا لیکن پوچھ گچھ کے بعد انھیں کوئی چارج لگائے بغیر رہا کردیا گیا ہے۔ سیکورٹی سے متعلق امور کے وزیر ڈامیان ہنڈز نے بی بی سی کو بتایا کہ مزید رابطوں کے منکشف ہونے کا ہمیشہ امکان رہتا ہے، ہم نے پولیس کو اپنی تفتیش مکمل کرنے کی آزادی دے رکھی ہے۔ ایک شادی شدہ جوڑے ایلزبتھ اور میلکم ہچکوٹ نے آئی ٹی وی کو بتایا کہ السویلمین عیسائیت قبول کرنے کے بعد کچھ دنوں ان کے ساتھ رہا تھا، السویلین کا مشرق وسطیٰ سے تعلق تھا اور اس نے اسلام ترک کر کے لیورپول کے اینگلیکن کیتھڈرل میں ایک تقریب میں عیسائی مذہب قبول کرلیا تھا، یہ کیتھڈرل اس ہسپتال کے قریب ہی واقع ہے، جہاں ملزم نے دھماکہ کیا تھا، السویلمین کو ایک چاقو رکھنے اور اس کے رویئے کی وجہ سے 6 ماہ کیلئے مینٹل ہیلتھ ایکٹ کے تحت پابندی عائد کی گئی تھی۔ شہر کی سٹکلف اسٹریٹ پر ایک دوسرا مکان بھی، جہاں السویلمین اس سے قبل رہائش پذیر تھا، پولیس کی تفتیش کا مرکز ہے۔ اس واقعے کے بعد برطانیہ میں دہشت گردی کے خطرے کی سطح بڑھا دی گئی ہے۔